Posted date: August 26, 2017In: Urdu Section|comment : 0
علی سخن ور
دوسروں کی زبان سے وہ لفظ نکلیں جو میں سننا چاہتا ہوں، لوگ میری پسند کے راستوں پر چل کر اپنی منزلوں کا چناؤ کریں، لوگوں کی رائے، خواب،اندیشے ، امیدیں اور وسوسے، سب میرے ذہن اور میرے دل سے ہو کر گذریں ، معلوم نہیں ماہرین نفسیات، اس خواہش کو کیا نام دیتے ہیں،میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اگر خواہش کا یہ انداز کوئی بیماری ہے تو پھر اس بیماری کا نام کیا ہے ، تاہم مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی سوچ کے حامل افراد کی تعداد نہایت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم عدالتی فیصلوں اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے بھی اپنی ذاتی پسند نا پسند مسلط کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔بالخصوص عدالتوں کے حوالے سے میں یہ گذارش کرنا چاہوں گا کہ اگر عدالتیں عوامی خواہشات سے مرعوب ہوکر فیصلے کرنے لگیں تو سارے کا سارا نظام دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔معاشرہ تباہ ہوجائے گا، معاشرے کی تباہی سے افراد براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔معاشرے کو بچانا ہے تو ہمیں اداروں کو تحفظ دینا ہوگا، اسی میں فلاح بھی ہے اور اسی میں بقاء بھی۔معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں تو وہی کچھ ہوتا ہے جو آج افغانستان میں ہورہا ہے۔انتشار اور خانہ جنگی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر دوسرے ممالک مداخلت کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں۔ سینکڑوں سال کی تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے افغانستان آج اتنا بے بس ہے کہ وہاں بھارت اور امریکا کی مرضی کے بغیر مقامی لوگوں کے لیے ایک قدم بھی اٹھانا ممکن نہیں رہا۔ حد تو یہ ہے کہ تعمیراتی منصوبوں سے لے کر حکومتوں کے چناؤ تک سب کچھ غیر ملکیوں کی مرضی سے ہو رہا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج افغانستان اپنے برے وقتوں کے ساتھی پاکستان کی سرحدوں پر خون کی ندیاں بہانے کو بے چین نہ ہوتا۔یقیناً یہ صورت حال افغانستان کی مقامی آبادی کے لیے کچھ زیادہ باعث مسرت نہیں ہوگی لیکن معاملات کو اس نہج پر پہنچانے میں بہر حال مقامی لوگوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ حضرت علی کا قول یقیناًیہاں نہایت قوت کے ساتھ صادق آتا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔پاکستان آج بھی ہر پلیٹ فارم سے ایک ہی بات کا اظہار کر رہا ہے کہ ایک پرامن افغانستان پاکستان کا خواب ہے مگر دوسری طرف سے ان نیک تمناؤں کا جواب گولہ باری کی صورت میں موصول ہو رہا ہے۔
ریاستی اداروں اور حکومت کے درمیان عدم تعاون اور بد اعتمادی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کسی ایک معاملے پر اتفاق رائے کا فقدان دکھائی دے گا،ہر شخص ایک نئی بات کرتا نظر آئے گا۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے علاقے مزار شریف کے علاقے میں ایک فوجی بیس کیمپ پر نہایت منظم حملہ کیا گیا، اس حملے میں 140سے زائد افغان فوجی ہلاک ہوئے، بے شمار کے زخمی ہونے کی خبر آئی۔ افغان میڈیا کے مطابق حملہ آور فوجی وردیوں میں ملبوس اور فوجی گاڑیوں میں سوار تھے، اس حملہ آور قافلے میں کچھ فوجی ایمبولینسیں بھی شامل تھیں جن میں سوار زخمی سپاہیوں کے ہاتھ پاؤں پر پلستر بھی چڑھے ہوئے تھے اور کچھ کو تو باقائدہ ڈرپس بھی لگی ہوئی تھیں لیکن مرکزی دروازے کے پہرے داروں کو دھوکہ دینے کے بعد یہ قافلہ جیسے ہی اصل احاطے میں داخل ہوا ان نام نہاد زخمیوں نے پلستر اور ڈرپس کو اتار کر پھینک دیا اور ان میں سے کچھ نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑالیا اور باقی نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ فوجی بیس کیمپ پر قیامت صغری برپا تھی، جسموں کے چیتھڑے اڑ چکے تھے، لاشوں کی شناخت ممکن نہیں رہی۔ لیکن افغانستان کی حکومت نے اس واقعے کے اصل ذمے داروں کی تلاش کی بجائے، بنا سوچے سمجھے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی۔ ملک میں کوئی سسٹم موجود نہ ہو تو غیر ملکی بھی حکمران بن کر پالیسی بیانات جاری کرنے لگتے ہیں۔افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ایک ترجمان نے واقعے کے بعد لوہا گرم دیکھ کر ایک اور ضرب لگائی اور کہا کہ امکان ہے حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں چھپے ہوئے حقانی نیٹ ورک سے ہو۔افغان حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ممکن ہے افغانستان کی اپنی فوج کے کچھ لوگ اس واقعے میں ملوث ہوں۔ افغانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے اس خیال کا بھی اظہار کر دیا کہ ہمیں اپنے ملک سے دہشت گردوں کی ان محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہوگا جنہیں پڑوسی ممالک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ وزارت خارجہ کے اس ترجمان نے جب پڑوسی ممالک کی بات کی تو کا اشارہ بھارت کی طرف ہو لیکن مذکورہ بیان میں اس حقیقت کو بحر حال تسلیم کر لیا گیا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ اس دلخراش سانحے کے بعد افغانستان کی سرزمین الزامات پر مبنی تجزیوں کے کسی ٹاک شو کا منظر پیش کرنے لگی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔دوسری طرف پاکستان کا رویہ بھی دیکھیے کہ چیف آف دی آرمی سٹاف کی ہدایت پر چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی سربراہی میں ایک اعلی اختیاراتی وفد افغانستان بھیجا گیا جس نے اس واقعے میں جان سے محروم ہونے والوں کے لیے پاکستان کی طرف سے تعزیت کی اور زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے پاکستان کی طرف سے ہر ممکن تعاون کی پیشکش بھی کی۔
ادارے مضبوط اور مربوط ہوں تو کٹھن سے کٹھن حالات سے نمٹنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں ادارے مضبوط ہیں نہ حکومت، اسی لیے ہر سطح پر تباہی اور بربادی کے مناظر معمول کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔رہی سہی کثر بھارت کی مداخلت سے پوری ہوجاتی ہے۔ کچھ دل جلے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ عملی طور پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نہیں بلکہ نریندر مودی ہیں اور یہ کہ افغانستان کا دارلحکومت کابل کی بجائے نئی دلی میں ہونا چاہیے۔ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بد امنی، بے یقینی اور اشرف غنی حکومت کے غیر ذمے دارانہ رویے کے باعث افغان نیشنل سیکیورٹی فورسزANSF بھی بدترین بد دلی کا شکار نظر آتی ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان آرمی کے تیس ہزار سے زائد جوان اور افسر ایسے ہیں جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں، یہ بھگوڑے نہایت باقاعدگی سے تنخواہیں اور مراعات بھی لیتے ہیں لیکن ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتے،اطلاعات کے مطابق یہ بھگوڑے فوجی مختلف جنگجو قبائلی سرداروں کی فوج کا حصہ بن چکے ہیں۔ امریکی ان جنگجو سرداروں کو WAR LORDSکا نام دیتے ہیں۔یہ ساری صورت حال صرف اس لیے ہے کہ افغانستان میں حکومت، فوج اور دیگر ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو کوئی سسٹم ہی موجود نہیں۔ سسٹم کی خستہ حال کتاب کے صفحات جگہ جگہ بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ کتاب کے صفحات بکھرنے لگیں تو فوری طور پر کسی اچھے جلد ساز سے رجوع کرنا چاہیے۔وقت پر صفحات کو جوڑنے کی کوشش نہ کی جائے تو کتاب کاغذ بن جاتی ہے۔