Posted date: February 21, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
امورومعاملات چاہے سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ‘ ریاستی یا حکومتی ‘حساس یا غیر حساس ‘ سماجی یا ثقافتی ‘ اقتصادیات کی مشکلات ہوں یا دفاعی اہمیت کے حامل ہر نکتہ، ہر معاملہ اور ہر ایک امر نیک نیتی کا متمنی ہوتا ہے، جذبہ ِٗ خیر کے سوا کسی بھی امر یا کسی بھی معاملہ کو اگر جزوقتی لحاظ سے حل کرنے کی کوئی کوشش عمل میں لائی جائے گی تو کبھی ایسے غیر فطری تنازعوں کی بڑی سے بڑی کار ساز تدبیروں میں سے خیر کا کوئی نتیجہ نہیں آ تا جلد یا بادیر ایسے حل کردہ غیر فطری ا مور ومعاملات میں سے کچھ نہیں صرف ’شر ‘ ہی ’شر‘ برآمد ہو تا ہے اور برآمد ہونے والا یہ ’شر‘ ظلم وتعدی وفساد کا سرچشمہ ہوتا ہے یہ شر سب سے پہلے اُن خاص عناصر کو ہڑپ کرتا ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے اِن مذکورہ بالا امور ومعاملات کی جھلستی ہوئی آگ برساتی ہوئی ریت کے صحرا میں ننگے پاؤں بلا سوچے و سمجھے چل پڑتے ہیں ،شمالی وزیر ستان کی دشوار گزار پہاڑی درّوں کی لامتناہی سلسلہ وار وادیوں میں پاکستانی آئین وقانون کو مطلوب مسلح جرائم پیشہ گروہوں کے گروہوں نے گزشتہ سات آٹھ برسوں سے ایک نہ ختم ہونے والا خونریز تصادم برپا کررکھا ہے، یہ کون ہیں؟ وہاں کیسے مجتمع ہوئے ؟ اِن کے مقاصد کیا ہیں ؟ ماضی میں اِنہوں نے کیا جرائم کیئے ؟یہ کس کی پیدا کردہ ہیں ؟ یہ سب اتنے طاقتور کیسے اور کیوں کر ہوئے ؟ پاکستان کی مجموعی ریاست کا اِن کی نظروں میں کیا تصور ہے ؟پاکستانی طرزِ حکمرانی کا یا دنیا میں کسی بھی مسلم ریاست کا جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے اُن مسلم ریاستوں کے وجود کے بارے میں اِن کا کیا کہنا ہے ؟ اِن سوالوں کے جتنے بھی جوابات گزشتہ سات آٹھ سالوں میں اِن مسلح دہشت گردوں کے ہمددوں یا اِن کے مخالفین نے دئیے اپنی جگہ اُن سب جوابات کو ہم صحیح مان لیتے ہیں،ضروری نہیں کہ مسلم لیگ (ن ) کے وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید سے ہمارا براہِ راست کوئی تعلق ہے ماضی میں وہ صحافی تھے شائد یہ ہی وجوہ ہو کہ وہ جب بھی بولتے ہیں اُن کے الفاظ کے اوزان بڑے بامعنیٰ ہوتے ہیں کون دے گا اُن کے اِس سوال کا جواب ‘ سید منور حسین ‘ عمران خان یا پروفیسر ابراہیم ؟’’طالبان اپنے آپ کو شریعت کا سُرخیّل کہتے ہیں بڑا زور ہے ’شریعت ‘ پر جواب دیں نا پرویز رشید نے جو پوچھا ہے ’آئیں بائیں شائیں نہیں ‘ طالبان نے ایف سی کے 23 جوانوں کو اور کراچی میں پولیس کے23 اہلکاروں کو شہید کیا کیا اُن کا یہ عمل عین شریعت کے مطابق تھا ؟‘‘پروردگارِ عالم قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے ’ویوم یعض الظالم علی یدیہ‘ ظالم دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹے گا‘‘کراچی سے خیبر‘ فاٹا اور بلوچستان کہاں کہاں پر بے گناہوں کا ماتم نہیں ہورہا؟ طالبان مہمند ایجنسی کے کمانڈر نے ایف سی کے اغواء کیئے گئے 23 جوانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا کیا یہ ظلم نہیں کون ہے یہ کمانڈر خراسانی ؟جس نے مرحوم قاضی حسین احمد پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور اِس بزدلانہ حملے کی ذمہ داری قبول بھی کی‘ اِ س بات کا جواب اُن سے پوچھا جائے جو آجکل جماعتِ اسلامی کو ’کمان ‘ کررہے ہیں طالبان کی غیر انسانی ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی شریعت کے نفاذ کے مطالبات پر ان کی زبان ’طالبانائزیشن ‘ کے نغمے الاپ رہی ہے، اِن کے دل شمالی وزیر ستان کے طالبان کے لئے نرم روئی کے گالے کی مانند اُن کی وکالت کا بوجھ اُٹھائے کل روزِ قیامت خود اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کا جواب کیسے دے پائے گی ؟
گزشتہ 17-18 دنوں کے دوران میں حکومتی اورِ آئین کے منکر باغیوں کے مابین مذاکرات کے باوجود اِن مسلح بغاغیوں کی یکطرفہ انسانیت سوز کارروائیوں کا وزیر اعظم نے فوری نوٹس لیا مگر عمران خان کی انتہائی مایوسی کن کارکردگی سے ملکی نوجوان طبقہ کو شدید مایوسی ہوئی مثلاً بقول عمران خان کے ‘ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی موجودگی میں سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا ’اگر طالبان کے خلاف کوئی آپریشن کیا گیا تو اِس میں کامیابی کے40% امکانات ہیں، یعنی قوم یہ سمجھے کہ پاکستان کی فوج جسے دنیا کی ساتویں بڑی طاقتور فوج مانا جاتا ہے 10-15 ار منتشر طالبان کے سامنے ’بالکل بے بس اور لاچار ‘ ہے مطلب یہ ہی ہوا نا کہ’ ’طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی دنیا کی تسلیم شدہ ایٹمی ریاست کو جب چاہے تگنی کا ناچ نچاسکتی ہے؟ یہ کس کمزور وناتواں ٹیم کا بے خبر عقل کا ہیجان زدہ ’کپتان‘ ہے جو کسی موثر اور ٹھوس بات پر ٹھہرتا ہی نہیں‘ آخر مسٹر ’خان ‘ کو اب کافی ٹھنڈ پڑگئی ہوگی اپنے اعلیٰ ترین عسکری منصب سے ریٹائرڈمنٹ کے بعد اب تک خاموش سابق آرمی چیف جنرل کیانی کو بالآخر یہ بات کہنی پڑگئی کہ’’ یقیناًیہ بات اُنہوں نے کہی ضرور تھی مگر ویسے نہیں جیسے میڈیا میں عمران خان بتا رہے ہیں‘ اِس موقع پر وزیر اعظم صاحب بھی اگر وضاحت فرمادیتے تو اور بہتر ہوتا ، جنرل کیانی نے کہا تھا کہ’یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ شمالی وزیرستان میں کسی فوجی کارروائی یا آپریشن ہوتے ہی ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا البتہ اِس میں40% تک کمی آجائے گی ‘‘عمران خان کا یہ نیا رویہ بڑا مایوس کن رہا ہے افسوس بہت بُری طرح سے ’اسٹمپ‘ہوئے ’اسٹمپ آؤٹ‘ ہونے والا بالر بڑی حیرانگی سے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے یاد رہے سیاست کی پُرخار وادی میں وہ کھلاڑی یاد رکھا جاتا ہے جو ہر پیچیدہ امور کی گتھیاں اُن استدلال سے کھولنے میں ہنر رکھتا ہو جو امور آپس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہوں جناب! جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دہشت گردی کی بپھرتی ہوئی لہر پر 40% کمی آ نے کے امکانات کے ساتھ یہ نشاندہی کر کے سیکیورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ کو منوایا تھا اور ملکی قائدین کو بروقت آگاہ کردیا کہ ’یہ ظالم وسفاک دہشت گرد’وائٹ کالر ‘ ملبوسات میں پورے ملک کے کوچہ وبازاروں میں پھیل چکے ہیں پہلے ان خطرات کا تشفی بخش تدارک ضروری ہے ایم کیو ا یم گزشتہ 20-25 برسوں سے کراچی کی واحد اکلوتی سیاسی جماعت کراچی کے عوام کا ووٹ بنک ایم کیوایم کے پاس ‘ ایک عرصہ سے یہ جماعت کہتی چلی آرہی ہے کراچی میں’ طالبانئزیشن ‘کے بڑھتے ہوئے عفریت پر قابو پایا جائے ‘ نہ کل کسی نے ایم کیو ایم کی سنی نہ آج ‘ کتنا بھیانک نتیجہ اہلِ پاکستان کو بھگتنا پڑ گیا، جہاں یہ ایک سچ ‘ وہاں ایم کیو ایمِ اِن حقائق سے فرار حاصل نہیں کرسکتی کہ ’کراچی کے گلی محلوں میں، خاص کرکراچی کے چار ڈسٹرکٹ کی گلی محلوں میں اِسی جماعت کا سکہ چلتا ہے اگر ایم کیوایم کی صفوں میں سیاسی وحدت ویکتائی ہے وہ اپنے اپنے سیکٹر انچارج کو لائن اپ کرکے کم ازکم انجان لوگوں کو ‘ اچانک نئے آنے والے لوگوں کو کرائیے پر گھر دینے ‘ دکان یا گھر خریدنے والوں کی سرچینگ شروع کرد ے ایم کیو ایم اپنی سطح پر ایک تہائی کراچی کے علاقوں میں مشکوک لوگوں کی ’حرکات وسکنات ‘ نظر رکھنے میں یقیناًکامیاب ہوسکتی ہے ،پُرامن سیاسی محتسبانہ یہ کارروائی ایم کیوایم کے لئے ایک ’سیاسی سرپرائز ‘ثابت ہو گا بڑی حد تک ایم کیو ایم پر وقتاً فوقتاً عائد کیئے جانے والے اِس کہنہ ا لزام سے بھی کراچی کی یہ سیاسی جماعت خود کو علیحدہ کرکے سرخروہوجائے گی کہ اِس جماعت کی صفوں میں بھی جرائم پیشہ عناصر پائے جاتے ہیں؟؟؟۔