Posted date: December 30, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
حال ہی میں مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق جنہیں طالبان میں خاصی مقبولیت حاصل ہے نے انسدادِ پولیو کے ضمن میں ایک فتویٰ جاری کیا ہے۔ اس فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ پولیو کے خاتمے کے لیے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا بالکل اسلام کے عین مطابق ہے۔ شریعت کے مطابق بچوں کو پولیو جیسی مہلک بیماری سے بچانے کے لیے ویکسین کا استعمال شرعی اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اس فتویٰ میں والدین کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ بلاخوف و خطر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے لازمی پلائیں تا کہ وہ پولیو جیسی خطرناک بیماری سے بچائے جا سکیں۔ مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیو کی ویکسین کے خلاف دہشت گردوں کی طرف سے جاری کیے گئے تمام بیانات میں کوئی صداقت نہیں بلکہ یہ سراسر جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہیں۔ یہ فتویٰ اس پابندی کے جواب میں آیا ہے جو دہشت گردوں نے انسدادِ پولیو مہم پر عائد کر رکھی ہے ۔
پچھلے کچھ ماہ سے پاکستان میں عسکریت پسندوں نے بچوں کو پولیو قطرے پلانے والے متعدد مرد اور خواتین رضا کاروں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے کالا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں جون 2012 سے اب تک 25 رضا کار جان بحق ہو چکے ہیں۔ عسکریت پسند ان حملوں کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ پولیو کے قطروں کے نام پر مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو روکنے کے لیے یہ مغرب کی سازش ہے اور ان قطروں کی وجہ سے ایک شخص تولیدی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ دہشت گردوں نے یہ بات کسی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کے بعد نہیں کہی بلکہ ان کا مقصد اپنے مفروضوں اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر معصوم بچوں کو اس حق سے محروم رکھنا ہے۔ ایسا سچ یا ایسی بات جس کی کوئی تصدیق یا تحقیق نہ ہو قرآن پاک میں اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اِسے قرآن نے “ظن” یعنی شک یا پھر خیال کا نام دیا ہے ۔ قرآن ظن کی مذمت کرتا ہےاور بعض صورتوں میں اسے ایسی ذاتی خواہش سے تعبیر کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں کوہدایت کرتا ہے کہ جس قدر ہو سکے ظن سے گریز کریں۔ ظالم دہشت گرد جو اپنے آپ کو اسلام کا سچا پیرو کار تصور کرتے ہیں درحقیقت اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔ تمام افعال کی طرح ان کا یہ عمل بھی اسلام کے خلاف ہے۔ یہ درحقیقت طالبان کی ذاتی خواہش ہےجس کے تحت وہ بچوں کومعذوری کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ دراصل پاکستانی قوم کے اصل دشمن تو یہ ہیں جو چاہتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کے معمار معذور ہو کر اس ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کی بجائے ملک کی ترقی و خوشحالی میں رکاوٹ بن سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے تحت پولیو سے بچاؤ کی مہم کا مقصد دنیا کو اس وائرس کے باعث ہونے والی معذوری سے پاک کر کے بچوں کی زندگیوں کو زیادہ صحت مند اور خوش گوار بنانا ہے۔ جبکہ طالبان ہر صورت پاکستان کے باشندوں خصوصاً بچوں کو خوشگوار اور کامیاب زندگی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے اس مقصد کے لیے پھر چاہے معصوم بچوں کے سکولوں کو جلانا پڑے یا پھر انھیں پولیو کے قطروں سے محروم کرنا پڑے وہ ہر ظالمانہ عمل کرنے پر تیار ہیں۔پولیو سے بچاؤ کی مہم سے پوری دنیا مستعفید ہو رہی ہے لیکن پاکستان ان بدقسمت تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں سے یہ موذی مرض ختم نہیں کیا جا سکا۔عسکریت پسندوں کی اس پابندی کے باعث خیبر پختونخواہ کے ڈھائی لاکھ کے قریب بچوں پر اس مہلک وبائی مرض کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ دہشت گرد صرف اور صرف اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہٹ دھرمی پراَڑے ہوئے ہیں انھیں پاکستانی عوام کی خوشحالی اور بقا سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ وہ اپنی ذاتی دشمنی کی بنیاد پر معصوم بچوں کو بھی اپاہج بنانے پر راضی ہیں۔جاہل دہشت گرد بندوق کے زور پر پاکستانی عوام کو جاہلیت کے تاریک دور میں لے جانا چاہتے ہیں۔ طالبان جدید تعلیم و تحقیق کے سخت خلاف ہیں۔ نہ تو جدید ادویات چاہتے ہیں اور نہ ہی فرد کی آزادی کے قائل ہیں۔ وہ صرف اور صرف تشدد، ظلم اور زیادتی کے حامی ہیں اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ تمام مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو پولیو جیسے موذی مرض سے بچانے کے لیے صف آراء ہو جائیں تا کہ انتہا پسندی کی اس لعنت کو رو ک کر ہم پاکستان کو ایک صحت مند اور خوشحال نسل فراہم کر سکیں جو ملک و قوم کی ترقی میں سب کے شانہ بشانہ چل کر پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی اس راہ پر گامزن کر دیں جس کا خواب بابائے قوم نے دیکھا تھا۔