انسداد پولیومہم کے رضا کاروں پر حملے اور دہشت گردوں کے مذموم مقاصد
[urdu]انسداد پولیومہم کے رضا کاروں پر حملے اور دہشت گردوں کے مذموم مقاصد
ایس اکبر
دہشت گردوں نےکوئٹہ میں ایک بار پھر انسداد پولیو ٹیم کو اپنی بر بریت کا نشانہ بنایا ہے۔ جس میں 3 خواتین سمیت تقریباً4 رضاکار جاں بحق ہو گئے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ انسداد ِ پولیو مہم کےرضا کاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اب تک اس مہم سے منسلک 72 رضا کاروں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان معصوم اور نہتے لوگوں کو صرف اس وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کیونکہ وہ انسانیت کی خدمت کررہے تھے اور پولیو سے پاک پاکستان کے لیے بر سرِ پیکار تھے۔پاکستان میں پولیو تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ہے۔2012 میں منظرِ عام پر آنے والے پولیو کے مریضوں کی تعداد 58 تھی جو 2013 میں بڑھ کر 93 ہو گئی جبکہ 2014 میں یہ تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور رواں سال 286 پولیو کے متاثرہ افراد سامنے آئے ہیں۔
پولیو سے بچاؤ کی مہم سے پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے لیکن پاکستان ان تین بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں ان دہشت گردوں کی وجہ سے اس موذی مرض پر قابو نہیں پایا جا سکا۔دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں میں انسداد پولیو مہم پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور جس کے باعث اب خیبر پختونخواہ کے ڈھائی لاکھ کے قریب بچوں پر اس مہلک وبائی مرض کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ان معصوم بچوں کو صرف اس مقصد کی بنا پر پولیو کے قطروں سے محروم رکھا گیا کہ یہ قبائلی علاقوں کے رہائشی ہیں جہاں دہشت گردوں کا راج تھا۔اسی ضمن میں یہ دہشت گرد ان رضا کاروں پر حملے بھی کرتے رہے تا کہ اس مہم کومکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔پولیو مہم سے منسلک رضا کاروں پر وقتاً فوقتاًہونے والےیہ حملے اب قبائلی علاقوں تک محدود نہیں رہے بلکہ پاکستان کےدوسرے مختلف شہروں میں بھی ان رضاکاروں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ماضی میں ان حملوں کی ذمہ داری صرف تحریک طالبان نے قبول کی لیکن حال ہی میں ایک دوسرے دہشت گرد گروہ جنداللہ نے کوئٹہ میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہےجو کہ ایک پریشان کن بات ہے۔
عسکریت پسندوں کے مطابق پولیو کے قطروں کے نام پر یہ مہم درحقیقت مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے مغرب کی ایک سازش ہے اور ان قطروں کی وجہ سے انسان اپنی تولیدی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ایک طرف یہ انتہا پسند پولیو کے قطروں کے خلاف واویلا مچا رہے ہیں اور دوسری طرف خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے یہ ظالم دہشت گرد مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا باعث بن رہے ۔ دہشت گرد مغربی ممالک سے بدلے کی آڑ میں پاکستان میں آگ و خون کا کھیل کھیل رہے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ انتہا پسند عناصر مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے خلاف کاروائیاں نہیں کر رہے بلکہ پیسوں کے لالچ میں ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر کار بند ہیں۔
انتہا پسند دہشت گردوں نے ہمیشہ اسلام کی تعلیمات کو اپنے مقا صد کے لیے استعمال کی ہیں۔پہلےخودکش بمبار بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات کو پا مال کیاپھر اپنی ظالمانہ کاروائیوں کواسلام کے عین مطابق قرار دینے کے لیے قرآن اور احادیث کےمطالب کو اپنی مرضی سے تبدیل کردیا اور اب پولیو کے خلاف من گھڑت کہانیاں بنا کر اسے غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے ر ہےہیں۔اسلام تو سائنس کی ترقی اور نئی ایجادات کے حق میں ہے اور انسان کو ترقی کی منازل طے کرنے پر زور دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ تمام بیماریوں کی طرح پولیو کی بیماری کی ویکسین بھی انسانوں کی شب و روز کی محنت کا ثمر ہےتا کہ آنے والی نسلوں کو اس موذی مرض سے محفوظ رکھا جا سکے ۔دنیا کے تمام ممالک میں اس بیماری کے خاتمے کے لیے اقدام کیے جا رہےہیں۔ جبکہ پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔در حقیقت دہشت گرد پاکستان کو ترقی کی کسی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہونے دینا چاہتے ۔خود کش حملوں اور جہاد کے نام پر یہ ظالم پہلے ہی لاکھوں بچوں کا مستقبل تباہ کر چکے ہیں۔اور اب یہ معصوم بچوں کو معذوری کا تحفہ دے کر پاکستان کو بالکل ہی ناکام ملک ثابت کرنے کے لیے کو شاں ہیں کیونکہ نئی نسلیں ہی کسی بھی ملک کی معمار ہوتی ہیں اور اگر ان معماروں کو ہی توڑ دیا جائے تو کوئی ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔
پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے تمام مکتبہِ فکر کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی پڑے گی۔پاکستان کے تقریباًتما م علما اکرام اور اسلامی ادارے پولیو ویکسینشن کے حق میں فتویٰ دے چکے ہیں جن میں واضح الفاظ میں کہاگیاہے کہ پولیو کے قطرے پینا حلال ہیں اور اس میں کوئی ایسی مُضر صحت چیز شامل نہیں جس سے انسان کو کسی بھی طرح نقصان پہنچتا ہے۔سیکیورٹی اداروں اور تما م متعلقہ افراد کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ انسداد پولیو مہم کے رضا کاروں کو ہر ممکنہ تحفظ فراہم کریں ۔ با وثوق ذرائع کے مطابق بہت سے والدین نےاپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کر دیا ہے۔ والدین کو بھی احساس ذمہ داری ہونا چاہیے کہ اپنے بچوں کو اس مہلک بیماری سے بچانے کے لیے پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں ۔میڈیا ، عوام اور عمائدین کو چاہیے کہ کمیونٹی سطح پر آگاہی پروگرامز کےذریعے درست اورصحیح معلومات کی فراہمی یقینی بنائیں اور لوگوں میں شعور اجاگر کریں کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوا کر اس مہلک بیماری سے نجات دلائیں۔ ہم سب کو مل کر دہشت گردوں کے خوابوں کو ملیا میٹ کرنا ہو گا اور اپنی آنے والی نسلوں کو اس مرض سے بچانا ہو گاتبھی ہم ایک روشن پاکستان دیکھ سکیں گے۔[/urdu]