اگر آزادی تمام انسانوں کا حق ہے تو کشمیریوں کا کیو ں نہیں
Posted date: February 04, 2015In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پانچ فروری یومِ یکجہتی کشمیر بڑی باقاعدگی سے ہر سال منایا جا رہا ہے۔ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے کہیں ایک آدھ تقریب یا سمینارہو جاتا ہے اور یہ دن گزر جاتا ہے اور اگلے دن دفاتر اور تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جاتے ہیں، یومِ یکجہتی گزر جاتا ہے اور بس نہ حکومت میں کوئی جنبش پیدا ہوتی ہے نہ سیاسی پارٹیوں میں نہ میڈیا میں۔ یا تو اعلان کر دیا جائے کہ ہم کشمیر سے دستبردار ہوتے ہیں تاکہ قصہ ہی ختم ہو یا اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی کوشش کی جانی چاہیئے لیکن ایسا بھی نہیں کیا جارہا کیونکہ جہاں سیاست چمکانے کا موقع ہو وہاں اس مسئلے سے مدد لے لی جاتی ہے۔ جبکہ معاملہ موقع پرستی سے زیادہ سنجیدگی کا طلب گار ہے کیونکہ یہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے۔پانی کے مسئلے کو لیجیے اسی سے جڑا ہوا ہے کہ پاکستانی دریاؤ ں کے منبع ادھر ہیں اور یہی پانی پاکستان کے زرعی میدانوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔نہ صرف زراعت بلکہ صنعت بھی کئی کئی حوالوں سے انہی دریاوءں کی مرہو نِ منت ہے کہ بڑی آبادیاں اور صنعتیں یہی پر پھلتی پھولتی ہیں لیکن بھارت انہی دریاؤں کا پانی روک کر ڈیم بنا رہا ہے۔
ہماری سرحدوں پر تناؤ پیداہوتا ہے تو اسی مسئلے کی وجہ سے،اسلحے کی دوڑ ہے تو اسی کی بنا پر بلکہ اندرونی امن کا مسئلہ بھی اسی سے منسلک ہے کراچی میں تو یہ مسئلہ بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور کر سکتا ہے۔یہی حال قبائلی علاقوں کا ہے وہاں لوگوں میں شدت پسندانہ جذبات آخر خود رو جھاڑیوں کی طرح کیوں اُگ رہے ہیں کیا ہم سے کشمیر کے حالات کا بدلہ لیا جارہا ہے۔ اگر آج ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے اور اہلِ کشمیر کو ان کے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے جو کہ انسانی بنیادوں پر اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق ان کو حاصل ہے تو دنیا کا یہ حساس ترین خطہ بھی بدامنی سے محفوظ ہو سکے گا۔لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے اور یہ سمجھنے سے کہ بین الاقوامی برادری خود اس مسئلے کو حل کر لے گی سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ غریب ممالک تو اپنے مسائل میں مبتلا ہیں اور بڑی طاقتیں اسلحے کی ایک بڑی منڈی کو کسی بھی طرح ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیں گی۔اور یہ بھی سمجھ لینا کہ صرف یومِ یکجہتی منا لینے سے اور چھٹی کر لینے اور دے دینے سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا بھی خوش فہمی ہو سکتی ہے حقیقت پسندی نہیں۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پر اُجاگر کیا جائے اور ایک زبردست سفارتی مہم چلائی جائے تاکہ دنیا کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایا جاسکے کہ کس طرح ایک ایسے علاقے کو بھارت نے غلام بنا رکھا ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے جو نہ تاریخی طور پر نہ ثقافتی طور پر اور نہ ہی مذہبی طوربھارت سے کوئی مماثلت رکھتا ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ کشمیری شہادتیں قبول کر رہے ہیں ،سختی برداشت کر رہے ہیں، یتیمی کا دکھ سہنے کو تیار ہیں اور بیوگی کی بے بسی بھی لیکن بھارت کے ساتھ رہنے پر آ مادہ نہیں ، اور اسی جرم میں روزانہ ریاستی تشدد کا سامنا کر رہے ہیں ہر روز شہادتیں ہو رہی ہیں صرف آزادی کی خواہش کے جرم میں ۔نہ ہی عورتیں محفوظ ہیں نہ بچے اور نہ ہی بوڑھے کون کہاں مرا کسی کو معلوم نہیں۔ ٓ بھارت کشمیر میں الیکشن کروا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کو شش کر رہا ہے کہ وہ کشمیر یوں کے جمہوری حق کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ دنیا سے یہ بات کسی طرح نہیں چھپا سکتا کہ کیسے وہ خود ہندؤں کو لا کر کشمیر میں بسا رہا ہے اور یہاں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کو شش کر رہا ہے۔ آزادی کشمیریوں کا حق ہے اور اس حق کو حاصل کرنے کے لیے وہ مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں لیکن بھارت اس جُرم کی پاداش میں مسلسل ان کا قتل عام کر رہا ہے۔1989 سے اب تک شہید ہونے والے ایک لاکھ کشمیری اس بربریت کی نظر ہوئے وہ تو ایک طرف لیکن اگر ہم صرف 2014 پر نظر ڈالیں اور اس کے ہی اعدادوشمار لیں تو بھارتی الیکشن، جمہوریت،انسانی حقوق سب کچھ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اس نے صرف اس ایک سال میں 112 کشمیری اسی جُرم میں شہید کیے جن میں دس کو جعلی مقابلوں میں یا زیر حراست قتل کیا گیا،1531افراد زخمی ہوئے اور تقریباََ چار ہزار سے زائد سویلین کو گرفتار کیا گیا۔مقامی میڈیا کے مطابق کشمیر کے ترقی کے دعوے کرنے والی بھارت سرکارنے کشمیری طلبہ کے لیے اعلان کیے گئے تعلیمی وظائف بھی واپس لے لیے۔
بھارت کشمیرمیں آزادی کی تحریک کو مسلسل دبا رہا ہے اور بھارت میں بدامنی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا کر پوری دنیا میں واویلا کرتا ہے تو ہمارے پاس تو حقائق ہیں، پھر ہم کیوں ان حقائق کو دنیا کے سامنے نہیں رکھ رہے ،ہم دنیا کو کیوں نہیں بتا دیتے ہیں اورکیوں نہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو جگا دیتے ہیں کہ وہ آکر ہزاروں نوجوان کشمیری بیواؤں اور معصوم یتیم بچوں کا دُکھ دیکھ لیں تاکہ اُن کے لیے آواز اٹھائی جا سکے۔بھارت استصوابِ رائے سے مسلسل انکاری ہے اور اقوام متحدہ بھی اپنے اس سب سے قدیمی مسئلے کے حل سے مسلسل غفلت برت رہا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی سیاستدان، دانشور اور صاحبانِ اختیار اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور بھارت کو سفارتی طور پر اتنا مجبور کریں کہ وہ کشمیریوں کا حقِ آزادی تسلیم کرلے۔اگر آزادی دنیا کے تمام انسانوں کا حق ہے تو کشمیریوں کا کیو ں نہیں اور اگر غلام بنا نے والا اور پھر قتل کرنے والا ظالم ہے تو بھارت کیوں نہیں۔