نغمہ حبیب
پاکستان میں ایک جملہ جو بہت تواتر سے سننے کو ملتا ہے کہ ’’اس میں اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے‘‘ یہ ’’اس‘‘ اکثر سیاسی معاملہ ہوتا ہے اور اسٹبلشمنٹ کا مطلب فوج ہوتا ہے کہنے کو ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج سب معاملات میں مداخلت کی مجاز نہیں بالکل درست ہے فوج کا کام دفاع ہے اور سیاست کا کام حکومت کا چلانا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ فوج ملک کے اندر ہونے والے کسی واقعے پر اپنی رائے کا اظہار بھی نہ کر سکے ظاہر ہے اُسے بھی ہر شہری کی طرح یہ حق حاصل ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فوج کی طرف سے آنے والی کوئی بھی رائے اور کسی بھی تجزیے پر ہمارے دانشور، میڈیا اور سیاست دان بول اُٹھتے ہیں۔ سیاسی اتحاد ہو تو فوج کو اس کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا جاتا ہے گویا کہ یہ کوئی واردات ہو جسکی منصوبہ بندی کی گئی ہو ہاں جب حالات خراب ہوں تو پھر فوج ہی طلب کرلی جاتی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور نہ صرف پاکستان کے ہر حصے کے لوگ یہاں بستے ہیں بلکہ دیگر قومیتوں اور ملکوں سے بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ یہاں آباد ہیں لہٰذا یہاں مختلف قسم کے مسائل بھی جنم لیتے رہتے ہیں۔ کراچی ایک عرصے تک ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے زیر اثر رہا یہاں اگر پتا بھی ہلتا تھا تو ’’الطاف بھائی‘‘ کی اجازت لینا ضروری ہوتی تھی۔ کراچی کے باسی اس سحر میں ڈوبے رہے یا اُنہیں اس حصار کا قیدی بنا کر رکھا گیانا معلوم افراد ، بوری بند لاشیں بھتہ، نوگوایریا ہڑتالیں، شٹر ڈاون، جلاؤ گھیراؤ، پتھراؤ اور بہت ساری دوسری آفات نے کراچی کو گھیرے رکھا اور کراچی والوں کی زندگی اجیرن رہی سارا شہر ایک شخص اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں یر غمال بنا رہا۔ پھر اس گروہ میں دراڑیں پڑیں ظاہر ہے یہ سارے غیر محب وطن نہیں تھے لیکن پھنسے ہوئے ضرور تھے اورجب بات حد سے گزر گئی تو پھر خدانے بھی اپنی رسی کھینچی، ان کی اصلیت لوگوں کے سامنے آئی، ساتھ ہی شہر کے حالات میں بہتری آئی اور شہر کی رونقیں بحال ہوئیں۔حالات میں اس بہتری میں سندھ رینجرز کا جو کردار رہا وہ یقیناًقابل تعریف ہے لیکن حسب معمول اسے بہت سارے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم کے ہی کچھ پرانے لوگوں نے پاک سرزمین پارٹی بنائی تو کہا گیا اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے رینجر کو پولیس کے اختیارات فوجی اور سول اداروں کے باہمی رضامندی سے دیے گئے تھے لیکن اعتراض فوج پر کیا گیا اور ایسا کرتے ہوئے آپریشن سے پہلے کے حالات بھلادیے گئے ۔ پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں آپس میں اتحاد کی باتیں بھی ہوئیں تو بھی کہا گیا اسٹبلشمنٹ کا رچایا گیا کھیل ہے اس معاہدے کی رو سے کہا گیا تھا کہ کراچی کا امن ہر صورت بر قرار رکھا جائے گا ماضی کی طرف حالات کو نہیں پلٹنے دیا جائے گا، اس معاہدے کا انجینئربھی رینجر کو قرار دیا گیا ۔جب ان خیالات کاذکر ڈی جی رینجرز سندھ سے ایک نجی چینل کے پروگرام میں کیا گیا تو انہوں نے کہا کراچی کی سیاست میں سے تشدد ختم ہو جانا چاہیے اور چونکہ میڈیا پر ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ادغام کا یہی مقصد بتایا گیا لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں وہ الگ رہیں یا اکھٹے ہوں ہمارا تقاضا صرف یہ ہے کہ کراچی کو پھر ان حالات کی طرف نہیں پلٹانا چاہیے جہاں یہ پہلے تھا لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ اتحاد فوج نے کرایا کیا اِن لوگوں کو جی ایچ کیو لے جایا گیا اور وہاں یہ معاہدہ کرایا گیا۔ دراصل ہمارے ہاں یہ بات بہت آسان سمجھی جانے لگی ہے کہ ہر معاملے کی ذمہ داری فوج پر ڈال دی جائے لیکن در حقیقت یہ حکمرانوں اور ذمہ داروں کا اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہے کہ جو کچھ ہو خود کو بری الذمہ قرار دیا جائے۔ کراچی ایک بڑا شہر ہے یہاں کے مسائل بھی بڑے ہیں اور ماضی میں انتہائی گھمبیر بھی رہے ہیں بلکہ ابھی بھی کسی بھی وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے پھر ہمارا میڈیا اور ہمارے سیاستدان اُسے خوب خوب استعمال کرتے ہیں اور ملک دشمن عناصر اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔لیکن اب ہمارے قومی رویے میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے ہمیں معاشرے اور خاص کر سیاست میں مثبت رویوں کو رواج دینا ہوگا،الزامات کی سیاست سے گریز کرنا ہوگا، اپنے حصے کا کام خود کرنا ہوگا اور دوسروں کو ملک کے لیے کام کرنے دینا ہو گا تا کہ ملک میں بدامنی کی فضا کو ختم کیا جا سکے۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ علاقائی تعصب، لسانیت اور صوبائیت جیسی شدت پسندی بھی شامل ہے لہٰذا جہاں جہاں جس جس برائی اور بد امنی سے نجات حاصل ہو سکے کر لینی چاہیے اور ملک کی خاطر دوسرے اداروں کی کامیابیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے نہ کہ اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اس ملک کی بقا ء میں ہماری بقاء ہے اور اس کے امن میں ہمارا سکون۔