بابری مسجد۔۔۔بھارت دراصل ایک جنونی شدت پسند ملک
نغمہ حبیب
برصغیرتقسیم ہوا پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک بنے اور بھارت سے لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آگئے بلکہ انہیں پاکستان کی طرف دھکیلا گیا پھر بھی کروڑوں مسلمان بھارت میں ہی رہ گئے۔ ہندوستان پر چونکہ مسلمانوں نے ایک ہزارسال تک حکومت کی تھی اس لیے ان کی یاد گاریں شہر شہر پھیلی ہوئی تھیں،بے شمار مقابر، باغات دوسری عمارات کے ساتھ ساتھ بے شمار خوبصورت اور وسیع وعریض مساجد بھی یہاں موجود تھیں اور ان کی پرشکوہ عمارات اس بات کا ثبوت تھیں کہ انہیں بہت سوق سے بنوایا گیا تھا اور ظاہر ہے کہ تقسیم کے بعد یہ بھارت سرکار کی ذ مہ داری تھی کہ ان کی حفاظت کرتی لیکن ہوا یہ کہ بھارت سرکار نے نہ تو اپنے ہاں رہ جانے والے مسلمانوں کی حفاظت کی نہ ان کے مذہبی مقامات کی بلکہ اِن سے متعلق یاد گاروں کو اپنے نشانے پر لے لیا۔مسلم کش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا شہید ہو جانا ایک عام سی بات تھی اور ہے۔کسی بھی وقت کوئی ایسا نیا قانون بن جانا جو مسلمانوں کے خلاف ہو کوئی انوکھی اور انہونی بات نہیں۔ گائے کی حرمت کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں۔ آرایس ایس اور بجرنگ دل اور خود حکمران جماعت بی جے پی وہ متعصب جماعتیں ہیں جو بلاخوف وخطربلکہ سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار رہتی ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ کا ایک اندوہناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب 6دسمبر 1992کوو یشوا ہندو پریشد، آر ایس ایس، بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دوسری جماعتوں کے ہندو غنڈوں نے ایودھیا کی قدیم مسجد، بابری مسجد پر حملہ کیا اور اس کے گنبد کو شہید کر دیا اس مسجد کو 1528میں شہنشاہ بابر کے ایک جرنیل میر باقی نے بابر کی ہدایات پر بنوایا تھا۔ تغلق اندازِ تعمیر کا شاہکار یہ تقریباً پانچ سوسال پرانی مسجد مسلمانوں کی قدیم مساجد میں سے تھی۔ انیسوی صدی میں یعنی مسجد کی تعمیر کے تین سوسال بعد ہندؤوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ مسجد رام کی جنم بھومی پر تعمیر کی گئی ہے پھر1949میں ہندؤوں نے رات کے اندھیرے میں کچھ بت لاکر مسجد میں رکھ دیے اور بھارت سرکار نے فسادات کے خوف کی آڑلے کر مسجد بند کردی۔1984میں ویشوا ہندو پریشد نے دوبارہ ایک مہم شروع کی، لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور ایک رتھ یا ترا کا اعلان کیا جسے اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ سے ملتوی کرناپڑا اور 1985میں پھر یہ مہم شروع کی گئی جس کے نتیجے میں 1986میں ہندؤوں کو محدود پیمانے پر عبادت کی اجازت دے دی گئی۔ بھارت میں ایک رواج ہے کہ انتخابات سے قبل ہندؤوں کو خوش کرنے کے لیے اور ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جواقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف ہوں اور خود کو سیکولر کہلانے والا یہ شدت پسند معاشرہ اپنے سیاست دانوں کو ان اقدامات کا انعام بھی دیتا رہتا ہے اور اس لیے اس آزمودہ نسخے کو بار بار آزمایا جاتا ہے یعنی وعدے بھی کیے جاتے ہیں اور عملی اقدامات بھی چنانچہ 1989میں انتخابات سے قبل ہندؤوں کو مزید عبادات کی بھی اجازت دے دی گئی اور ساتھ ہی ایل کے ایڈوانی نے دس ہزار کلومیٹر کی رتھ یا ترا شروع کرنے کا اعلان کیا اس کے ساتھ آر ایس ایس ویشوا ہندو پریشد اور بی جے پی کے علاوہ بھی ہزاروں شدت پسند ہندو تھے جنہوں نے 6دسمبر1992کو مسجد پر دھاوابول دیا اور اس کے گنبدپر چڑھ کر اسے توڑ دیا اس مہم میں کوئی ہندو دوسرے سے پیچھے نہ تھا ہر ایک اپنی شدت پسندی کا ثبوت دینے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ اس کا روائی کے بعد جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو پھر اُن کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ مسلم ہندؤ فسادات پھوٹ پڑے اور دوہزار سے زیادہ جانیں گئیں جن میں ہمیشہ کی طرح زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی یعنی مسجد بھی مسلمانوں کی ڈھادی گئی اور جانیں بھی انہی کی گئیں اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں یہاں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہی متاثرین میں شامل تھی۔ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا گیا جس نے 399نشستوں کے بعد سولہ سال بعد اپنے فیصلے میں لکھا کہ”مسجد پر حملہ نہ تو بغیر منصوبہ بندی کے تھا اور نہ ہی اچانک“ یہ فیصلہ 2009میں آیا۔ مسجد پر حملے کے ردعمل کے طور پر پاکستان بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا لیکن باقی دنیا نے وہ ردعمل نہیں دکھا یا جو پاکستان یا کسی دوسرے اسلامی ملک کی کسی اقلیت کی عبادت گاہ پر حملہ ہونے کی صورت میں سامنے آتا۔بہرحال یہ معاملہ چلتا رہا دونوں فریق عدالت بھی جاتے رہے لیکن ہندو اکثریت اپنی اکثریت ہونے کا فائدہ اٹھاتی رہی اور آخری فیصلہ بھی اس کے حق میں ہی دیا گیا۔9نومبر 2019کو بھارت کی سپریم کورٹ نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے 2.77ایکڑ کی اس مسجد کوان کے حوالے کر دیا کہ وہ یہاں رام جنم استھان مندر تعمیر کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے مسلمانوں کو کسی اورجگہ مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین دے دی جائے گی اور یوں ایک تاریخی مسجد جو پانچ سو سال سے زیادہ تک مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی اسے ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا ایک ایسی وجہ کی بنا پر جس کی صحت کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔اس جگہ کو رام جنم استھان قرار دے کر یہاں رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی اور بدلے میں مسلمانوں کو ایک اور جگہ مسجد بنانے کے لیے زمین دے دی گئی جب کہ مسئلہ جگہ کا نہیں بلکہ اس مسجد کا تھا جو مسلمانوں کی عبادت گا ہ تھی اور جو ڈھائی جا رہی ہے اور اسی بات پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ بعد ازاں مسجد پر حملہ کرنے والے تمام بلوائیوں کو بھی عدالت سے بَری کر دیا گیا۔بابری مسجد ہونے کو تو ایک واقعہ ہے جو ایک غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کے مقدس مقام کے ساتھ پیش آیا لیکن دراصل یہ بھارت کے سیکولرازم کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت خود کو کہتا تو سیکولر اور سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن یہاں رہنے والی اقلیتیں کسی طور پر بھی محفوظ نہیں اور یہاں وہی ہوتا ہے جو ہندو اکثریت چاہے یا اس کے مفاد میں ہو۔ جب وہ چاہتے ہیں مسلمانوں کی جانوں کے درپے ہو جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ان کے اموال و املاک کو آگ لگا دیتے ہیں۔کبھی وہ گجرات میں قتل ہوتے ہیں کبھی مالیگاؤں میں کبھی ممبئی میں اور کبھی کسی چھوٹے سے گاؤں میں یا کسی محلے میں اور تو اور ان کے مذہبی مقامات تک محفوظ نہیں۔ہندو شدت پسندبہت کھل کر ہر غیر ہندو کو بھارت سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے اور پھر بھی جو لوگ وہاں رہنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کبھی کوئی بِل لایا جاتا ہے اور کبھی کوئی فیصلہ سنا دیا جاتا ہے یعنی باالفاظ دیگر وہاں کی حکومت پارلیمنٹ اور عدالتیں سب صرف ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں اور بیس کروڑ مسلمان جو بذاتِ خود کسی بڑے ملک کی آبادی سے زیادہ آبادی ہے ہر طرح سے نشانہ بنتے ہیں۔بھارت دراصل ایک جنونی شدت پسند ملک ہے اور اس بات کا نوٹس پوری دنیا کو لینا چاہیئے اور خاص کر مسلمان ممالک جو بڑے تحمل سے بھارت کے رویے کو برداشت کر رہے ہیں انہیں بھی بھارت کے بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی تاکہ بابری مسجد جیسے واقعات آئندہ جنم نہ لے سکیں۔