بابری مسجد اور ہندؤ سازش
نغمہ حبیب
بھارت کہنے کو تو سیکولر کہلاتا ہے لیکن یہاں موجود اقلیتیں جس اذیت سے گزرتی ہیں وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔یہاں ان کے نا معاشرتی حقوق محفوظ ہیں نہ معاشی ،اور مذہبی حقوق تو جیسے ہیں ہی نہیں،اگر چہ اس کے اثرات ہر مذہبی اقلیت تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن مسلمان تو گویاخاص نشانے پر ہیں۔بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمان کسی بھی وقت ہندو اکثریت کے غیض وغضب کا نشانہ بن سکتے ہیں۔کسی بھی مسلمان آبادی پر حملہ کر لینا کوئی بڑ ی بات نہیں، یہاں مسلمان کو گائے کا گوشت کھانے پر مارمار کر قتل کر دیا جاتا ہے۔بھارت میں اس وقت بیس کروڑ مسلمان آبادی موجود ہے،یہی مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوستان کے حکمران رہے اور یہی بھارت جو اپنے کئی ترقی یافتہ شہروں کو بڑے فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ان میں سے کئی شہر انہی مسلمان حکمرانوں کے آباد کردہ ہیں۔ان شہروں میں ہزاروں خوبصورت عمارتیں بھی انہی مسلمانوں کا کارنامہ ہیں۔بھارت جس تاج محل پر فخر کرتا ہے اور اس سے کروڑوں کماتا ہے وہ بھی ایک مسلمان باد شاہ کے ذہن کی اختراع ہے اور شاید اسی لیے اسے فضائی آلودگی کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اسی بھارت میں کئی شہر اپنے مسلمان بسانے والوں کے نام سے منسوب ہیں،فیض آباد، اٰلہ آباد ،علی گڑھ،احمد آباد، فرید آباد اور دوسرے کئی چھوٹے بڑے شہرجو مسلمانوں کے بہترین ذوق کے آئینہ دار ہیں۔مغلیہ اور اس سے پہلے کے ادوار کی عالی شان عمارتیں اسکے علاوہ ہیں جن میں خوبصورت باغات ، مقبرے،محلات اور مساجد سب شامل ہیں اور بھارت کے لیے سیاحوں کی آمد کے واسطے سے آمدن کا ذریعہ ہیں۔ انہی میں شامل ایودھیا فیض آباد کی قدیم بابری مسجد بھی اپنے خوبصورت گنبدوں اور میناروں کے ساتھ موجودہے ۔ مغل سالار اور اودھ کے گورنر میر باقی نے مغلیہ سلطنت کے بانی بابر کے حکم سے اسے تعمیر کیااور صدیوں تک یہ مسجدکے طور پر قائم رہی ۔وقتاََ فوقتاََ ہندو اس پر اپنا دعویٰ کرتے رہے کہ یہ ان کے رام کا جنم استھان ہے۔دسمبر 1949میں شدت پسند ہندؤں نے اس مسجد کے سامنے بیٹھ کر نو دن تک پوجا کی اور دسویں رات اس میں مورتیاں رکھ کرصبح یہ مشہور کیا کہ مورتیاں راتوں رات خود آگئی ہیں جس پر اگلے دنوں میں ہزاروں ہندوانہیں دیکھنے کے لیے پہنچ گئے، شہر کے حالات خراب ہو گئے اور مسجد کو تالے لگا دیے گئے حکومت نے مورتیاں ہٹا نے کا حکم دیا لیکن ڈپٹی کمشنر فیض آباد،کے ۔کے نائرنے ہندؤں کے خوف سے ایسا نہیں کیا۔ مسجد کا تنازعہ چلتا رہا اور ہندوشدت پسند مسلسل مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کے لیے کو شاں رہے اور 6دسمبر 1992کو تمام شدت پسندوں نے اکٹھے مسجد پر ہلہ بول دیا۔ ویشوا ہندو پر یشد، بی جے پی اور آرایس ایس کے غنڈے مسجد کی گنبد پر چڑھ دوڑے اور اسے شہید کرتے ہوئے شدید نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں دو ہزار ہلا کتیں ہوئیں یہی سلسلہ آگے بڑھا اور ڈیڑھ وہ ماہ بعد مزید نوسو افراد مارے گئے جن کی اکثریت مسلمان تھی۔ اب ایک بار پھر جب چھ دسمبرجسے ہندو فتح کے دن کے طور پر مناتے ہیں نزدیک ہے تو پھر یہ ساری دہشت گرد ہندو تنظیمیں ایسے ہی منصوبوں پرغور کر رہی ہیں ،خود یوپی کا وزیراعلیٰ جو کہ ایک شدت پسند ہندو ہے ان منصوبوں میں پیش پیش ہے ۔کم از کم دولاکھ ہندؤں کو جمع کرنے کا پروگرام ہے اور اسی خوف کے مارے کئی مسلمان خاندان فیض آباد سے دوسرے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک بارپھر 1992کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بار اور بھی ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے بھارت کے مسلمانوں اور ان کی تاریخ کو نقصان پہنچے۔ آلہ آبادجیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کر کے ہندو نام پرایاگ راج رکھے جانے کا اعلان کیا گیاہے اُتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے مطابق تو وہ تاج محل کا نام بھی تبدیل کرے گا۔ بابری مسجد کوئی سو پچاس سال پُرانی مسجد نہیں بلکہ صدیوں پُرانی ہے، پھر کیسے اسے ڈھاد یا جائے جبکہ یہ صدیوں سے سنی وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ بھارت میں مسلمان نہ کبھی محفوظ تھے نہ ہیں اور اس وقت بھی انتہا ئی خطرے میں ہیں۔ان کی املاک، دکانیں اور گھر جلا دینا کوئی بڑی بات ہی نہیں ،ان کی جانوں کو بھی ہندو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو سیکولرکہتا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بے شک انسانوں کی بھیڑ کے حساب سے بھارت بڑی آبادی ضرور ہے لیکن نہ تو یہاں دوسری اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں نہ دنیا کی سب سے بڑی اقلیت یعنی اس کے مسلمانوں کے ،بلکہ انہیں تو یہاں جانورں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے اور ایک گا ئے کی خاطرسینکڑوں مسلمان مار دیے جاتے ہیں۔جہاں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں محفوظ نہ ہوں اسے تو انسانی معاشرہ کہلانے کا حق بھی نہیں۔اس وقت بابری مسجد کے بارے میں جو گھنا وٗنا منصوبہ بنایا جا رہا ہے اس پر دنیااور خاص کراسلامی دنیاکو ضرور نوٹس لینا چاہیے ورنہ ایک بار پھر بھارت کے مجبور مسلمان اپنی ایک تاریخی مسجد اور ہزاروں مسلمانوں کو بے بسی شہید ہوتے ہوئے دیکھیں گے اور کچھ نا کر سکیں گے۔ ایسے مواقع پر صرف اور صرف عالمِ اسلام کا اتحادو اتفاق ہی دنیا کے مسلمانوں کا محافظ بن سکتا ہے۔