Posted date: February 12, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی[urdu]
30 برس قبل سندھ کے شہروں کراچی ‘ حیدرآباد اور میرپورخاص میں ایم کیو ایم کے نام سے راتوں رات اک سیاسی تنظیم وجود میں آئی تھی، اس تنظیم کا ابتدائی تعلق ’اے پی ایم ایس اُو‘ سے تھا اس سیاسی تنظیم کی سر براہی جامعہ کراچی کے شعبہ فارمیسی کے ایک طالب علم الطاف حسین نامی شخص نے سنبھالی، جو قبل ازیں جمعیت میں بھی ’شہرت ‘ پانے کے لئے ہاتھ پیر مار چکا تھا ،’این ایس ایف ‘ میں بھی گھسنے کی اُن کی کوششیں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں موصوف ’ ممتاز عالمی شہرتِ یافتہ شیعہ عالم ومفکر اور اپنے زمانے کے پائے کے خطیب علامہ رشید ترابی کے منفرد طرزِ خطابت سے بہت مرعوب تھے اُن کی تقریروں کی نقلیں اتارا کرتے تھے یہ ’صاحب‘ شہرت کی بلندیوں پر جلد ازجلد پہنچنے کی جدوجہد بہت مصروف رہے اُن کی سیمابی اتار چڑھاؤ کی ذہنی کیفیت کے زمانے یعنی 70-71 کے دور کی سیاسی تبدیلی کے دور میں ‘ مطلب یہ کہ اچانک بنگلہ دیش کا بن جانا پھر ذوالفقار علی بھٹو کا یکدم ’ بڑی قدآور سیاسی شخصیت بن کر ابھر جانا ‘ جبکہ ساتھ ہی سندھ میں ممتاز علی بھٹو کا بحیثیت وزیر اعلیٰ بن جانا ‘تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی حالات میں یکایک ممتاز بھٹو کا یہ قدم اُٹھا لینا کہ ’سندھ کی صوبائی زبان سندھی ہوگی نہ صرف یہ بلکہ سندھ کے ہر تعلیمی اداروں میں سندھ زبان پڑھنا لازمی ہوگا ساتھ ہی ایک دھماکہ یہ ہوا کہ مرکزی حکومت نے آئین میں دس سال کے لئے سندھ صوبہ میں ’کوٹہ سسٹم ‘ نافذ کردیا، وجہ یہ بتائی گئی کہ دس سال کے بعد سندھی نوجوان بھی اِس لائق ہوجائیں گے کہ وہ وفاقی حکومتوں کی ملازمتوں میں آسکیں گے، سندھ کے اربن ایریا کے تعلیم یافتہ نوجوان اِس نئے قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہوگئے کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں غالباً سال 72 میں ’سندھی بولنے والوں اور اردو بولنے والوں کے مابین خونریز لسانی فسادات ہوئے، اردو بولنے والوں اور سندھی بولنے والوں کے درمیان لسانی دراڑ کی اِس وقتی پیداوار نے وہ ’خلاء ‘ پیدا کردیا جسے اچانک‘ یکایک کوئی ذرا دیر کیئے بغیر ’اے پی ایم ایس اُو نے Own کرلیا جیسے تیسے بھٹو صاحب نے اپنی پانچ سالہ حکومت پوری کرلی جب ملک میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا تو اُس نے ہر اُس کونے کودھرے کی تلاش شروع کردی کہ بھٹو کی سیاسی قدآوری کی بصیرتوں کو کیسے مزید بدنام کیا جائے‘ یہاں یاد دلانا بے حد ضروری ہے کہ ’نوستاروں ‘ کی تحریک میں بھی بھٹو مخالفت کی تقریروں اور نعروں کی گونج دار آواز کے لئے لوگوں نے یہ دیکھا ہوگا کہ کراچی کے’ نوستاروں ‘ کے جلسوں کا مائیکروفون الطاف حسین کے ہاتھوں میں رہا اُس زمانے کی اخباری کلپس دیکھی جا سکتی ہیں فلمسٹار محمد علی مرحوم اور فلمسٹار ندیم جیسے اردو بولنے والے دیگر کئی اور نامور بڑی شخصیات کے گھروں کے دروازوں تک کہاں کہاں الطاف نے دستکیں نہیں دیں؟ ’شہرت ‘ اور ’عظیم شہرت ‘ جب کہیں اُنہیں دستیاب نہیں ہوئی تو موصوف نے پاکستان کو خدا حافظ کہہ دیا، پھر نجانے 80 کی دہائی شروع ہونے سے قبل کراچی کی دیواروں پر اہل کراچی نے ایسی تحریریں لکھی ہوئی دیکھیں ’ کوٹہ سسٹم ختم کرو‘ اردو بولنے والے ’مکڑ ‘ نہیں بلکہ وہ’مہاجر قوم‘ ہیں؟ یوں ’مہاجر قومیت ‘ کا نام پہلی بار جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں سامنے آیا ماضی میں جب بھی ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے ہر بار کراچی میں ’مڈل کلاس ‘ سے تعلق رکھنے والے مولانا شاہ نورانی اور پروفیسر غفور احمد جسے عام لوگ ہی یہاں منتخب ہوتے رہے ‘اصل میں جنرل ضیاء اوّل تو عام انتخابات کروانا چاہتا ہی نہیں تھا، وہ ملک میں اپنی حکومت کو ہرصورت میں قائم رکھنے کے منصوبوں پر عمل پیرا رہا اُس کے زمانہِ اقتدار میں ملک میں نہ صرف لسانیت کو فروغ ملا ملکی معاشرہ بہت تیزی سے فرقہ ورانہ تقسیم کا شکار ہوا ،یہ ساری کالعدم فرقہ ورانہ تنظیمیں چاہے، اُن کا تعلق سنی دیوبندی فرقہ سے ہو یا ا لحدیث فرقہ سے یا شیعہ فرقہ کی متشدد تنظیمیں ہوں معاشرتی انارکی سیاست میں اُس کے دور میں پرون چڑھی تھیں اور سماج کے دیگر حصوں کو بھی متعصبانہ اندھی نفرتوں کے گہرے آلاؤ میں اُسی نے دھکیلا تھا کراچی کی رنگارنگ روشنیوں کو بجھے آج 30 برس سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے، اردو بولنے والوں کی ایک پوری نسل انسانی عظمتو ں کی آفاقیت کو یکدم بھلا بیٹھی ہے نہ تو تہذیب وتمدن کے نقطہ ِ نظر کی ذہنی وفکری نصب العین اُس نسل کے پیشِ نظر رہی اُس نسل نے جس کی دوڑ الطاف حسین جیسے کم علم و کج فہم جو نہ کل ’قائد تھا ‘ جو نہ آج ’قائد ‘ ہے جسے ’ قائد ‘ بننے کے اعلیٰ نصب العین اعلیٰ اقداراور بنیادی اُصول وپاسداری کی جہتوں کا کوئی آج اتہ پتہ ہے اِس الطاف حسین کے کہنے پر اُس نسل نے ’قلم ‘ پھینک دیا 30 برس جو ’ہتھیار ‘ اُنہوں نے اُٹھایا تھا، آج وہ بدنصیب نسل کراچی میں اپنی راتیں اپنے گھروں پر گزار ر نہیں پار ہی ہیں گز شتہ دنوں ایک تقریر میں الطاف حسین نے ’کوٹہ سسٹم ‘ کا ذ کر کیا تھا ہمیں کسی قسم کی ’قسم ‘ لے کر اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ‘ چونکہ سچ یہ ہی ہے گزشتہ30 برسوں سے بلدیاتی انتخابات کی شکل میں صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی صورت میں ایم کیو ایم نے تاحال اپنی اب تک کی اپنی ساری عمر حکومتیں کرتے گزار دی ہیں، مجال ہے جو کبھی اُنہوں نے ’کوٹہ سسٹم ‘ کے خلاف قومی اسمبلی کے فلور پر بات کی ہو ‘ کبھی کراچی یا ملک میں اپنا کوئی موثر احتجاج ریکارڈ کرایا ہو الطاف حسین کی ایک اور بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ’شہرت ‘ پر رہے بھی اور ’شہرت پرنہیں بھی رہے؟ بلکہ ایسے ہی جیسے کہ ’ہٹلر اورمسولینی وغیرہ تھے کتنی بڑی شہرت پائی اِنہوں نے کتنے عرصہ اور کیسی بہیمانہ حکومتیں کی اِنہوں نے مگر ’عوام کے دلوں پر راج کرنے والے عظم و قدآور شخصیتیں یہ بالکل بن نہ سکے، یہ ہی تاریخی المیہ الطاف حسین کے ساتھ بھی ہے اگر کوئی نہ مانے تو اِس میں ہمارا کیا قصور؟ ٹائمز آف انڈیا کے زیر اہتمام پاکستان کے خلاف منعقدہ سمینار میں موصوف نے جو کچھ بھی کہا اُسے دہرانا ضروری نہیں‘ مگر اِتنا ضرور کہیں گے کہ ’پاکستان کو اپنی شناخت کا حوالہ بنانے سے الطاف حسین نئی دہلی میں کترائے بہت ‘ شرمائے بہت زیادہ‘ اب وہ خود اللہ تعالیٰ کا معجزہ دیکھیں’ آج اُن پر اِس ملک کا رزق حرام ‘پاکستان کا پانی وہ پی نہیں سکتے پاکستان کی چھاؤں اور پاکستان کی چاندنی اُن پر حرام ہے‘ فکر نہ کریں بہت جلد برطانوی جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ سامنے آنے والی ہے وہ جتنا کچھ کرنا چاہئیں کرلیں افواجِ پاکستان اور پاکستانی خفیہ سپریم ادارے آئی ایس آئی کے خلاف پاکستانی عوام اب اُن کے بھڑکانے اُکسانے میں آنے والی نہیں ہے ‘ 85-86 کی جس نسل کو اُنہوں نے اپنے اوچھے جذباتی ہتھکنڈے استعمال کرکے قربانی کا بکرا بنایا تھا اُس کا عذاب دنیا میں بھی اُن کے نام ر ہے گا آخرت کیا ہوگی ؟یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، یاد رہے بے گناہ کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا ڈاکٹر عمران فاروق بے گناہ تھے وہ اپنا ایک نیا سیاسی کیئر یر شروع کرنے والے تھے مگر ’نجانے ‘ کس کے کہنے پر وہ قتل کردئیے گئے سب کچھا چٹھا جے آئی ٹی میں سامنے آجائے گا ،چند دنوں کی بات ہے شکر ہے یہ سب کچھ پاکستان میں نہیں ہورہا ، ایسے ملک میں ‘ ایسے معاشرہ میں انصاف کی یہ شفاف کارروائی ہورہی ہے جس کی مثالیں دنیا بھر کے انصاف کے متلاشی اقوام دیتے ہیں، کاش۱ انصاف کا ایسا بیباک اور شفاف سسٹم پاکستان میں بھی رائج ہوجائے ۔[/urdu]