بلوچستان میں انارکی کا تسلسل۔ امریکی شعبدہ بازیاں (1)
Posted date: January 05, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصرر ضا کاظمی
قیام ِ پاکستان سے 9/11 تک جتنی بار امریکا نے پاکستان کی طرف نظر کی ہمیشہ بغض وعناد اور کینہ پروری کی نظروں سے پاکستان کو دیکھا 60-65 برس گزر چکے، پاک امریکا تعلقات میں ہر دفعہ کسی نہ کسی شکل میں بد شگونی، بے یقینی اور بدگمانی کے احساسات نے امریکا کے دوغلے پن کو پاکستانی قوم کی نظروں سے لاکھ چھپائے چھپنے نہ دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو یہ احساس ہو اکہ امریکا نے ہمارے ساتھ پھر کوئی نہ کوئی ”ہاتھ“ ضرور کیا ہے، ساٹھ کی دہائی میں بھارت چین کی جنگ کے موقع پر نہرو کی دوہائی پر امریکی صدر کیندی نے ایوب خان کو فون کیا پاکستان کو جھوٹی تسلی دی کہ”بھارت چین جنگی تنازعہ کے خاتمے پر کشمیر کا مسئلہ ٹیبل پر حل کروادیا جائے گا پاکستان بھارت کی مشرقی سرحدوں پر کوئی جنگی کارروائی نہ کرئے“
اِسی طرح سے سقوط ِ مشرقی پاکستان کا سنگین معاملہ ہو یا مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسئلے پر عالمی سرد مہری کا معاملہ‘ امریکی مقتدر قوتوں نے پاکستان کی کبھی ٹھوس مدد نہیں کی ہمیشہ اُس کا کھلا ڈلا جھکاؤ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی طرف ہی رہا، دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق کے لئے سرتاپا سرگرم (بظاہر) امریکی حکام چاہے وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس‘اُنہیں بھارتی اور اسرائیلی حکومتوں کی طرف سے بزور ِ قوت مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کبھی کوئی پرواہ نہیں ہوئی یہ امریکا صرف مسلم ممالک میں‘ خاص کر پاکستان میں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ڈھونڈتا پھرتا ہے کسی زمانے میں امریکی ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں پر انسانی حقوق کی پائمالیوں کا‘ بھارت بھی اِمریکی کورس میں پاکستانی دشمنی کے اپنے ’سُر‘ لگایا کرتا تھا اصل میں بھارت نے ہی یہ راگ الاپنا شروع کیا تھا، دسمبر 1971 میں پاکستان دولخت کردیا گیا، پچھلے سال دسمبر کے آخری دنوں میں امریکی اور بھارتی ساختہ ملک بنگلہ دیش میں انسانی حقوق ہی کیا؟ انصاف کے نام پر رات کی تاریکی میں انصاف کو پھانسی پر چڑ ھا دیا گیا علامتی طور پر ہی ایک مذمتی لفظ بھی امریکی حکام کی زبانوں سے نہیں نکلا کیا مہذب تہذیب ِ یافتہ قوموں کا یہی شیوہ ہے؟دنیا بھر کے مسلمان امریکا کی نظروں میں ہمیشہ سے قابل تنقید ٹھہرے آج بنگلہ دیش میں کوئی دِن ایسا نہیں جاتا جب وہاں کھلے عام سڑکوں پر اپنی ملی شناخت اور سماجی ثقافت کے تحفظ اور دفاع کے لئے احتجاج کرنے والوں کو بھارتی نواز بنگلہ دیش وزیر اعظم حسینہ واجد کے آمرانہ احکام پر موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے بات ہورہی تھی پاکستان امریکا تعلقات کی‘ امریکا کو ہمیشہ پاکستانیوں سے یہ گلہ شکوہ رہا ہے کہ پاکستانی عوام میں امریکا مخالف جذبات میں کمی کیوں نہیں آتی جبکہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ’مالی مداد‘ دی جاتی ہے، یہ کیسی مالی مداد ہے؟ کیسے دی جاتی ہے کیسے واپس لے لی جاتی ہے؟
اِس بحث کی یہاں گنجائش نہیں‘ مگر یاد رہے کہ امریکا کوئی ایک ملک نہیں‘ امریکا کوآپ’امیگریشن نسلوں‘ کی دنیا کہہ لیجئے جہاں حکومت کرنے والے‘ آئین اور قانون بنانے والے ’وقار، عزت اور طاقت‘کی مقتدر حیثیتوں کو صرف اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں، غیر امریکی اُن کی نظروں میں اوّل روز سے ہی مشکوک اور غیر تسلی بخش شہری رہے‘ اُن کی اصل نفرت اور تعصب دین ِ اسلام کے مانے والوں سے ہے امریکی ڈالروں کی جز وقتی چکاچوند سے مرعوب پاکستانی میڈیا کا ایک گروپ یہ بات کبھی نہیں تسلیم کرئے گا، روشن و تابناک حقیقت یہ ہی ہے حال میں امریکا کو بلوچستان میں ’انسانی حقوق‘ کی پائمالیاں ہوتی نظر آگئیں، ذراملاحظہ فرمائیے ”امریکی ایوان ِ نمائندگان میں مسلم دشمنی میں اپنی خاص شناخت رکھنے والے اور دنیائے ِ اسلام کے واحد ایٹمی ملک پاکستان کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے کانگریس مین ڈنا روحر بچر جو کانگریس میں ہاوس آف خارجہ کی ذیلی کمیٹی کے چیئر مین ہیں اْن نے اپنی پاکستان دشمنی کی روایات کو ایک بار پھر تازہ کیا آزاد وخود مختار مسلم ریاست اور اقوام ِ متحدہ کے رکن ملک پاکستان کے خلاف اپنے دلی بغض وعناد کے بدترین تعصب کا مظاہرہ کیا امریکی ایوان ِ نمائندگان میں ایسی متنازعہ قرار داد پیش کی‘ جو امریکا جیسے ملک کے لئے شایان ِ شان قرار نہیں دی جاسکتی اِ س قرارداد میں نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں کو “حق ِ خود ارادیت ” دینے کا مضحکہ خیز مطالبہ کیا گیا جبکہ اِ س قرار داد کی حمایت میں یہودی کانگریس مین اسٹیو کنگ نے اپنے بے وزن دلائل د ئیے ہیں یہ کون نہیں جانتا کہ ’نام نہاد علیحدگی پسندوں کو عالمی سطح پر مسلم دشمن مغربی وبھارتی تھنک ٹیکنس پیٹ بھر کے مالی امداد دے رہے ہیں،بلوچستان کے مقامی انتظامی مسائل کو بنیاد بناکر مشہور یہودی ریٹائرڈ لیفٹینٹ کرنل لئیو گیومٹ نے 1948 ‘ 1973 اور 2005 میں بلوچستان کے سرداروں کی طرف سے چلائی جانے والی پاکستان مخالفت کی انارکی اور مرکز گریز کی ذاتی مفادات کی پالسیوں کو پیش ِ نظر رکھ کر خیالی و تصوراتی آزاد بلوچستان کے نعروں کو مطمع ِ نظربنا کر کچھ نقشہ بناکر علیحدگی پسندوں کو باور کرایا ہے کہ وہ بلوچستان میں انارکی اور تشدد کی کارروائیاں جاری رکھیں یہ آج کی بات نہیں‘ سب جانتے ہیں امریکا کی بہ نسبت مستقبل کی عظیم ایشیائی سپر طاقت عوامی جمہوریہ چین نے بلوچستان میں قابل ِ ذکر ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل میں پاکستان کی جو بے مثال عملی تاریخی مدد وتعاون کا سفر شروع کیا ہوا ہے بلوچستان کی گوادر پورٹ کو فنکشنل کرنے میں چین کا جو تعاون جاری ہے امریکا کی نظروں میں یہ سب کچھ کانٹے کی طرح اب بہت زیادہ تکلیف دہ بنتا جارہا ہے،امریکا اپنی اِس تکلیف کا مداوا کرنے کے لئے بلوچستان کے مسئلے کی آڑ میں پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے اب نئے سرے سے پھر سرگرم ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے امریکی پالیسی یہ ہی ہے کبھی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کو ہوا دے کر اور کبھی لاپتہ افراد کا واویلا کرکے کبھی انسانی حقوق کی پائمالی کے جھوٹے تذکرے اور بحث ومباحثے کرکے نہ صرف پاکستان کو دنیا میں بدنام کیا جا ئے بلکہ بلو چستان سے ملحق مسلم ملک ایران کے خلاف بھی متعصب پروپیگنڈا مغربی و بھارتی میڈیا میں تواتر سے ہو نے لگا ہے وقت کے ساتھ سفارتی بغض وعناد کے پروپیگنڈے میں حالیہ دنوں میں مزید تیزی آگئی امریکی مفادات کی اپنی علیحدہ دنیا ہے جسے پینٹاگان والے اپنی محدود اور تعصب عقلوں سے سمجھتے ہیں اپنی متعصب عینکوں سے دیکھتے ہیں اْنہیں کوئی غرض نہیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں؟ اب جبکہ 2014 امریکی شکست خوردہ ہو کر افغانستان سے واپسی پر مجبور ہیں امریکی نژاداد یہودی تھنک ٹینکس کی ہر ممکن یہ ہی مبینہ کوشش اور تمنا ہے کہ نہ صرف پاکستان‘ بلکہ ایران اور افغانستان کو کئی ممالک میں تقسیم کیا جائے اِن تینوں مسلم ممالک کے جغرافیہ کو تبدیل کیئے بغیر اِس خطہ میں امریکی مفادات حاصل نہیں کیئے جاسکتے (جاری)