بلوچ قومیت پرست تحریکوں کی حقیقت
[urdu]
بلوچ قومیت پرست تحریکوں کی حقیقت
ایس اکبر
حال ہی میں یونائٹیڈ بلوچ آرمی اور بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والےکئی دہشت گردوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔ان کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے چار کمانڈر شکاری مری ، مدینہ مری، دن جان اور عبیداللہ نے دہشت گردی کی کاروائیاں چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے 104 کارندوں کے ساتھ ہتھیار ڈال دئیے ہیں ۔اس سے قبل حاجی کلاتی نے اپنے 50 ساتھیوں کے ساتھ دہشت گردی کی کاروائیاں ترک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ہتھیار ڈالنے والے دہشت گردوں میں سے ایک کمانڈر عبیداللہ عرف بابرک نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کی زندگی چھوڑ کر پر امن زندگی گزارنے کاخواہش مند ہے۔اسکے بیان کے مطابق ملک دشمن عناصر بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف اکسا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں ۔ بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر دن جان کا کہنا تھا کہ وہ اس نام نہاد جنگ سے قطع تعلق کر کے ایک با عزت زندگی گزارنا چاہتا ہے۔بلوچ قومیت پرست تحریکیوں اور اس کے رہنماؤں کی حقیقت سب پر عیا ں ہو گئی ہے کہ یہ تحریکیں کس طرح ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں ۔آج خود ان گروہوں سےتعلق رکھنے والے لوگ اس نام نہادجنگ کی حقیقت سے پردہ چاک کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ ان قومیت پسند کارندوں نے سہراب ڈیم تربت کے واقعہ کی بھی شدید مذمت کی ہے۔ان کارندوں نے اپیل کی ہے کہ بلوچ نوجوان غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہ کار نہ بنیں کیونکہ یہ آزادی کا نعرہ لگا کر ان نوجوانوں کو دہشت گردی اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں۔ اس لیے وقت کی اولین ضرورت ہے کہ ان ملک دشمن عناصر کو پہچان کر ان کے مذموم مقاصد کو ملیا میٹ کرنے میں حکومتِ وقت کا ساتھ دیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کو پہلے ہی کارندوں کی کمی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حکومت وقت اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا تیز کر دیا ہےجس کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو تنظیم میں شمولیت کے لیے اکسانا ہے ۔ حکومتِ وقت اور فوج کو بلوچستان کی محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہراکر ان کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارنا ہے۔ قومیت پرست تنظیمیں ہمیشہ ہی حکومت اور پاک فوج کے خلاف وا ویلا کرتی نظر آتی ہیں۔لیکن قومیت پرست گروہوں کے کمانڈرز اور کارندوں کا اپنے گروہ چھوڑ کر پرامن زندگی گزارنے کے فیصلے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ یہ تحریکیں کسی صورت بلوچ قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تحریکیں چھوڑ کر آنے والے دہشت گردوں کاخیر مقدم کیا جار ہے تا کہ وہ پرامن شہری کے طور پر اس ملک میں تعمیری کردار ادا کر سکیں ۔
بلوچ قومیت پرست رہنما جو خود کو بلوچ قوم کی روایات کا علمبردار ظاہر کرتے ہیں، ہر لمحہ نوجوانوں کو ملک اور حکومت کے خلاف ابھارتے نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ وسائل کی کمی اور صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار پنجابیوں کو ٹھہراتے ہیں اور اس بات کا چرچہ کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان حکومت کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف صوبہ پنجاب ہے۔ پنجابی دوسرے صوبوں کی عوام کا حق مارتے ہیں اور بلوچ عوام کے اصل دشمن ہیں۔ پنجابیوں کے خلاف ان کے اس پراپیگنڈا کا مقصد دو صوبوں بلوچستان اور پنجاب کی عوام کو آپس میں لڑوانا ہے۔ بلوچی پنجابیوں کو اپنا اولین دشمن تصور کرنے لگے ہیں جبکہ اصل دشمن تو یہ بلوچ قومیت پرست رہنما ہیں جو دراصل غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ ان کے افغانستان میں بھارت کے سفارت خانے سے گہرے تعلقات ہیں اور بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کی نشاندہی تو کئی دفعہ بین الاقو امی میڈیا بھی کر چکا ہے۔بھارتی سفارت خانے نہ صرف ان نام نہاد قومیت پرستی کا نعرہ لگانے والے رہنماؤں کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ صوبے میں دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکیونکہ صوبے میں مذہبی ،لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر کے صوبے کی علٰیحدگی کا نعرہ لگایا جا رہا ہے ۔حکومت ِ پاکستان نے ہندوستان کو بلوچستان میں عمل دخل سے متعلق ثبوت بھی فراہم کیے ہیں ۔
قومیت پرست رہنما دراصل غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں جو صرف اپنے مفادات کی خاطر صوبہ بلوچستان کی عوام کو سرزمینِ پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں تاکہ پھر اس پر اپنا جبراً قبضہ جما کر اس کے تمام تر وسائل سے مستفید ہو سکیں۔ بلوچ قوم کی ترقی و خوشحالی کا راز پاک وطن کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے میں ہی مضمر ہے تا کہ ان ملک دشمن اور بلوچ دشمن عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے۔
غیور بلوچوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے ذمہ دار عناصر کا ساتھ نہ دیں تا کہ یہ ملک دشمن عناصر اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ علاوہ ازیں حکومتِ وقت کو چاہیے کہ بلوچستان کے تما م مسائل کو حل کرکے بلوچ قوم کو قومی دھارے میں واپس لائے۔ بلوچوں کو روزگار مہیا کیا جائے ۔ تمام وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے تاکہ بلوچ قوم کسی دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرے ۔ اِن تمام مسائل کا حل بے حد ضروری ہے تا کہ حکومتِ وقت کی پالیسیوں کی بدولت زیادہ سےزیادہ دہشت گرداپنےتحریکیں چھوڑ کر پرامن شہری کے طور پرقومی دھارے میں شامل ہو۔
[/urdu]