بلوچ قومیت پرست تحریکوں کے مذموم مقاصد
بلوچ قومیت پرست تحریکوں کے مذموم مقاصد
ایس اکبر
باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی اور اس طرح کی دوسری قومیت پرست تنظیموں کو کارندوں کی کمی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حکومتِ وقت اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا تیز کر دیاہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت بڑھا کر اپنے کارندوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو تنظیم میں شمولیت کے لیے اکسانا ہےاور حکومتِ وقت اور فوج کو بلوچستان کی محرومیوں کا ذمہ دار ٹھہراکر ان کے خلاف نفرت کے جذبات کو ابھارنا ہےیہ قومیت پرست تنظیمیں ہمیشہ ہی حکومت اور پاک فوج کے خلاف وا ویلا کرتی نظر آتی ہیں اور اپنی تنظیموں کو بلوچ عوام کے لیے خیر خواہ تصور کرتی ہیں۔ پاکستان کے خلاف ان کی نفرت کا یہ عالم ہے کے یہ تنظیمیں پاکستان کے یو مِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتی ہیں یہاں تک کے اس دن شٹر ڈاؤن ہڑتال کے لیے بھی عوام ا لناس سے اپیل کی جاتی ہے تا کہ ملک کی ترقی کو دھچکا پہنچایا جاسکے اور یہ تاثر دیا جا سکے کہ بلوچستان ایک الگ ملک ہے۔
صوبے کی بدحالی اورامن و امان کی صورتحال اربابِ اختیار کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔آخر اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ بلوچ قومیت پسند رہنما صوبے میں بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے واقعات کی روک تھام میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ خودکو بلوچ قوم کے خیر خواہ ظاہر کرنے والے یہ رہنما کس حد تک بلوچ قوم کے مسا ئل کا حل نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ دراصل یہی قومیت پرست رہنما اپنے ڈھکے چھپے مفادات کی تکمیل کی خاطر بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں؟ پنجابیوں کے خلاف بلوچیوں کی نفرت کو ہوا دینے والے یہ عناصر کس طرح پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟
بلوچ قومیت پرست رہنما جو خود کو بلوچ قوم کی روایات کا علمبردار ظاہر کرتے ہیں ہر لمحہ نوجوانوں کو ملک اور حکومت کے خلاف ابھارتے نظر آتے ہیں۔یہ رہنما ہمیشہ وسائل کی کمی اور صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار پنجابیوں ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ اس بات کابھی چرچہ کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف صوبہ پنجاب ہے۔ان کے مطابق پنجابی دوسرے صوبوں کی عوام کا حق مارتے ہیں اور بلوچ عوام کے اصل دشمن ہیں۔ پنجابیوں کے خلاف ان کے اس پراپیگنڈا کا مقصد صوبہ بلوچستان اورصوبہ پنجاب کی عوام کو آپس میں لڑوانا ہے۔ اس نفرت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ صوبہ پنجاب میں بسنے والے بلوچیوں کے لیے پنجابی اکثریت کے دل سے محبت اور بھائی چارے کا خاتمہ ہو جائے گااور بلوچستان میں مقیم پنجابی بھی غیر محفوظ ہو جائیں گے ۔یہ ان رہنماوں کے پراپیگنڈا کےہی نتائج ہیں کہ بلوچستان میں پنجابیوں کا قتل کیا جانے لگا ہے۔ بلوچی پنجابیوں کو اپنا اولین دشمن تصور کرنے لگے ہیں جبکہ اصل دشمن تو یہ بلوچ قومیت پرست رہنما ہیں جو دراصل غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ ان کے افغانستان میں بھارت کے سفارت خانے سے گہرے تعلقات ہیں اور بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کی نشاندہی تو کئی دفعہ بین الاقوامی میڈیا بھی کر چکا ہے۔
یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ جب بلوچ قوم کی نمائندگی کا حق ان بلوچ رہنماؤں کوحاصل تھا تو ا نھوں نے اس دوران کیا کردار ادا کیا؟ کیا انھوں نے بلوچ قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے احسن اقدامات کیے؟ نہیں ہر گز نہیں اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ایک عرصے سے صوبائی حکومت کا حصہ ہونے اور اختیارات کا منبع ہونے کے باوجود بھی ان قومیت پرست رہنماؤں نے کبھی اپنی قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا۔ یہ ان کی لاپرواہیوں اور آسائش سے بھر پور زندگیاں گزارنے کا نتیجہ ہے کہ صوبہ بلوچستان میں سکول، کالجوں اور لائبریریوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ رہنما بلوچ قوم کے ہاتھ میں بندوق دے کر انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر نا چاہتے ہیں لیکن قلم دے کر انھیں معاشرے کا عزت دار اور پڑھا لکھا فرد بنانے سے اس لیے گریزاں ہیں کہ کہیں یہ قوم پڑھ لکھ کر ان کے فرسودہ جاگیردارانہ نظام اور ان کی طاقت کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ کہیں یہ بلوچ قوم کے نوجوان قائداعظم کے فرموادت کی روشنی میں ملک سے پیار نہ کرنے لگیں اور ان کے صوبہ بلوچستان کو الگ کرنے کے خواب کو ملیا میٹ نہ کر دیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے چندملک دشمن عناصر کی طرف سے علیحدہ وطن کے مطالبے میں بھی اضافہ ہو ا ہے ۔ اِس طرح کے مطالبات کا مقصد صرف اور صرف پاکستان میں انتشار پیدا کرناہے ۔ کچھ شرپسندوں نے بلوچستان میں یومِ آزادی کا دن ۱۱ اگست کو منانے کی کوشش کی جو مکمل نا کام ہوئی۔ یہ اِس امر کی نشاندہی ہے کہ بلوچ عوام پاکستان سے علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں۔صوبے میں دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسوں کی مداخلت کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتااور یہ ایجنسیاں پیسوں کا لالچ دے کر قومیت پرست تحریکوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور مذہبی ،لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر کے صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کشیدہ کر رہی ہیں ۔
غیور بلوچوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے ذمہ دار عناصر کا ساتھ دے کر اِن ملک دشمن عناصرکو اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو نے دیں تا کہ ان کا پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ علاوہ ازیں حکومتِ وقت کو چاہیے کہ بلوچستان کے تما م مسائل کو حل کرکے بلوچ قوم کو قومی دھارے میں واپس لائے۔ بلوچوں کو روزگار مہیا کیا جائے ۔ تمام وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے تاکہ بلوچ قوم کسی دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرے ۔ اِن تمام مسائل کا حل نکالنابے حد ضروری ہے کیونکہ اب دشمن ہماری سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ انتشار پھیلانے کے لیے ملک کے اند ر گھس آیا ہے۔ جس کو نکالے بغیر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔