Posted date: December 17, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
اظہار رائے کی آزادی کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے یہ احساس تک نہیں ہورہا کہ ہمارے ہاں اظہار رائے کی آزادی کے بے مہار انقلاب کو آئے غالباً پانچ چھ برس سے زائد زمانہ بیت چکا ہے کا ن پھٹی آوازیں سنائی دے رہی ہیں بہت سوں کو یہ یقین ہوچلا ہے ہاں! ’سچ‘ بولا جارہا ہے اور’ سچ‘ ہی دکھایا جارہا ہے، چند وہ اہم بڑے میڈیا ہاؤسنز جو ایک نام سے کئی چینل شروع کیئے ہوئے ہیں،
اُن کانہ صرف ملک بھر میں بڑا نام ہے، بلکہ اب تو اُنہوں نے (بڑے میڈیا ہاؤس والوں نے ) جن کے مطلق العنان مالکان پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے دبئی‘ لندن ’ پیرس ‘ اور سوئزرلینڈمیں بیٹھ کر مال ودولت کے انبار کے انبار وہ پاکستان سے کھینچ رہے ہیں نہ صرف پاکستان بلکہ یہ ’ وکھرے ٹائپ ‘ کے‘ خالص کاروباری ذہنیت کے ’ شیخوں کاگروہ‘ جنہیں آپ ’تھری ڈی میکس‘ کے ’ڈیمو‘ میں کسی جانب سے بھی دیکھیں تو اِن میں سے کوئی ایک بھی آپ کو نہ نام کا صحافی دیکھائی دے گا اور نہ تخلیق کار ‘ نہ وہ ادیب ہوگا نہ دانشور ‘ چاہے وہ کتنے ہی پُرانے اخباروالوں کی اولاد ہو وہ اب صرف یہ جانتا ہے کہ پیسہ بڑھتا کیسے ہے؟ پیسہ خرچ کیئے بغیر کوئی منصوبہ کیسے کھڑا ہوسکتا ہے؟ کسی کے پاس پیسہ نہ تو وہ سانس کیسے لے سکتا ہے پیسہ کا تذکرہ درمیان آئے بغیر کوئی اِس رنگا رنگی قسم کے میڈیا ہاؤس والوں کے سرخیل کسی موضوع پر گفتگو کر کرکے دیکھ لے،
اگلے پانچ سیکنڈ وں میں اِن ’جناب‘ کو اکتا ہٹ محسوس ہونے لگے گی اور بولتی یکدم بند ہوجائے گی، پاکستان میں میڈیا کے ابھرتے ہوئے عہدِ زریں کے ساتھ یہ کوئی اتفاقیہ یا حادثاتی ’ہاتھ ‘ نہیں ہوا ‘ بلکہ ’ارادتاً ‘ پاکستانی قوم پرست میڈیا پر ایک منصوبے کے تحت شب خون مار ا گیا جس کی تیاری 1980 کے عشرے میں مکمل کرلی گئی تھی یاد ہے نا آپ کو‘ کانگریس (آئی) کی سربراہ سونیا گاندھی نے کبھی کہا تھا’ہمیں پاکستان فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے ’ثقافتی ‘ لحاظ سے ہم ویسے ہی پاکستان کو ’کیپچر ‘ کرچکے ہیں پاکستان کا کوئی ایسا گھر نہیں جہاں رات گئے تک ٹی وی پر ہمارے ڈرامہ اور شوز نہ دیکھے جاتے ہوں یہ تھی ’را‘ کی وہ خطرناک تیاری ‘ جسے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر پاکستان مخالف منصوبے کی سازش کی نیت سے پاکستانی میڈیا میں ذہنی غلاموں کی فوج ظفر موج کو ٹھونسی گئی دوسری طرف ٹائمز آف انڈیا میں ’را‘ نے اپنے ایجنٹوں کو ٹھونسا ،’ ٹائمزآف انڈیا ‘ جیسا تقسیمِ ہند کا مخالف اخبار جو کبھی پاکستان کا دوست نہیں سمجھا گیا آج عقل حیران ہے نظر پریشان ‘ ’سچ اور حقیقت ‘جیسے اعلیٰ انسانی اُوصاف میں بھی ’عامیانہ پن ‘ صاف جھلکنے لگا ہے یہ پہلا سوال ہی بڑا عجیب و غریب ہے ’ٹائمز آف انڈیا ‘ کے پاک بھارت تعلقات کی برسوں کی تاریخی کشیدگی پر گہری نظریں رکھنے والے سنجیدہ ہندو صحافی کیسے اور کیوں فوراً ہی ’امن کی آشا‘ کے گیت سنگیت گنگنانے لگے ‘ کیا اُنہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کی سنگینی کا شعور نہیں تھا ؟
کس نے اُنہیں راضی کرلیا کہ پاکستانی قوم فوراً اپنے ملک کے بڑے میڈیا ہاؤس کے بہکاوے اور اکسانے میں آکر بھارتی عوام کے ’ہم پیالہ و ہم نوالہ‘ ہوجائے گی؟ اور اِتنا بھی نہیں سوچے گی کہ ماضی میں نئی دہلی نے سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی عوام کے ساتھ کس قدر بے رحمانہ ظلم وستم کیا ’را‘ کے مکتی باہنی والوں نے لاکھوں پاکستانیوں قیامت نما عذاب وعقاب کے پہاڑ توڑے ڈھاکہ کا پلٹن میدان بے گناہ مسلمانوں کے خون کا دریا بنا دیا گیا پاکستان اُس وقت ایک آزاد وخود مختار مملکت تھا مشرقی بنگال کی اکثریت مسلمانوں کی تھی اُن کے ہاتھوں پر بہاری مسلمانوں کے خون کا ایک دھبہ بھی نہیں ہے یہ خونی وحشیانہ کھیل ’را‘ نے مکتی باہنی کولکتہ کے ہندو بنگالی غندوں کی مدد سے مشرقی بنگال میں رچایا تھا آج بھی مسلم بنگلہ دیش میں تین لاکھ کے قریب بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کرنے والے پاکستانی بزرگ‘ عورتیں ‘ نوجوان ‘ اور معصوم بچے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیمپوں میں بڑی ا ذیت ناک زندگی کے ایّام بسر کررہے ہیں،
اِس سانحہ کو گزرے 42برس ہوگئے نئی دہلی حکومت نے آج تک اُنہیں مگر‘ معاف نہیں کیا ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ یہاں اسلام آباد میں ’اپنوں ‘ کی قومی غیرت کا کب کا جنازہ اُٹھ چکا ہے ’را‘ کے ہی کہنے اور اکسانے پر بنگلہ دیشی حکومت کی نئی دہلی نواز وزیر اعظم حسینہ واجد نے عبدالقادر ملا کو ’پاکستانی وفاداری ‘ کے جرم میں تختہ ِٗ دار پر چڑھا دیا ہے، کیا کہیں گے ہمارے مخالفین ہمیں جو کبھی نظریہ ِٗ پاکستان کی بات کریں ‘ نظریہِ اسلام اور قومی یکجہتی کے حوالوں سے کہیں گفتگو کریں ‘ قومی سلامتی یا دفاعِ وطن اور ملکی معیشت کے خلاف بھارتی و عالمی سازشوں کی تھیوری پیش کریں وہ ہمیں کمئی کمیں کہہ دیتے ہیں ایسے قومی موضوعات کا یہ لوگ بڑا ٹھٹھہ اُڑاتے ہیں، شہید عبد ا لقادر ملا ( اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے ۔آمین ) ہمیں تو صرف دیکھنا یہ ہے کہ اُنہیں ’پاکستان وفاداری ‘ ثابت ہونے پر پھانسی دی گئی پاکستان کے شعبہ ِٗ زندگی پر اِس انتہائی افسوس ناک المیہ کے اثرات مرتب ہو ئے ہیں یا اِس بارے میں کسی کو ذر ہ برابر بھی کوئی احساس تک نہیں ہوا ،جماعتِ اسلامی نے اپنی جگہ خوب جم کر ریکارڈ احتجاج کیا ،پوری قوم نے شہید عبد ا لقادر ملا کا سوگ منایا جس اسلامی مملکت بنگلہ دیش میں یہ سانحہ ہوا ہے وہاں کے کڑوڑوں مسلمان عوام سراپا احتجاج ہیں اِس بہیمانہ سزائےِ موت کے دئیے جانے کے بعد بنگلہ دیش کا سیاسی ومعاشرتی پہیہ جام ہوگیا ہے سخت نادانی کا ثبوت دیا ہے بنگلہ دیشی حکومت نے ‘ سیاسی مخالفتوں کی بناء پر دنیا بھر کی باشعور قومیں بڑی حساس واقع ہو ئی ہیں دنیا میں کہیں بھی اپنے مخالفین کو لمحہ بھر میں یوں پھانسیوں پر نہیں چڑھایا جاتا بنگلہ دیش کے کروڑوں مسلمانوں کے اظہار رائے کی آزادی کا پاکستانی نجی میڈیا کے اہم حصوں نے نوٹس تک نہیں لیا کچھ ٹی وی ٹاک شو میں اِس المناک المیہ پر ضرور بات ، جتنی دوٹوک ‘ بے باکی اور خود داری سے کھل کر بنگلہ دیشی حکومت کے اِس بھیانک اور غیر انسانی رویہ کی زوردار مذمت ’بڑے میڈیا کے اینکر صاحبان کو کرنی چاہیئے تھی وہ نہیں کی گئی کچھ بڑے نمایاں بے دیدے اور سخت دل قسم کے صحافی و دانشور لوگوں کو حسینہ واجد کی مسلم کش حکومت نے
’فررینڈز آف بنگلہ دیش‘ کے ’انعامات ‘ سے نوازا اگر اُن میں سے کسی ایک کا ضمیر بیدار ہو تاوہ آج یقیناًکفِ افسوس ضرور مل رہا ہوتا ؟ بنگلہ دیش میں آج سے 42 برس قبل بھی ظلم وستم جاری ہے مجیب الرحمان کی بیٹی نے ظلم وستم کی قابلِ نفریں یہ روایت آج بھی قائم رکھی ہوئی ہے ہمارا رونا تو اپنے میڈیا سے ہے جس نے ابھی تک اِس ’پھانسی ‘ کے خلاف بنگلہ دیش میں جاری سخت ترین مزاحمت پر مجرمانہ خاموشی طاری کررکھی ہے ۔