بنگلہ دیش کے عام انتخابات کے لئے ۔بھارتی ڈکٹیشن زہرِ قاتل
Posted date: December 03, 2013In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
بنگلہ دیش نے بحیثیتِ ایک علیحدہ آزاد ملک ہونے کے ناطے تاحال اپنی غیر جانبدارانہ مضبوط ومستحکم سیاسی شناخت قائم کرنے میں و یسی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی جو ایک بے داغ ‘ صاف وشفاف جمہوری وسیاسی حکومتوں جیسی کسی حکومت کی ہونی چاہیئے اِس میں کئی عوامل ہیں جس میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ دوبار حسینہ واجد کی عوامی لیگ بنگلہ دیس میں انتخابات جیت کر ایوانِ اقتدار کو حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے لیکن‘ چونکہ عوامی لیگ کا افسوس ناک تاریخی پس منظر ’بنگلہ بدھو‘ مجیب الرحمان کا مطلق العنانیت کی ایک طرف مسلسل جھکاؤ ہونے کی بناء پر تو دوسری طرف اسلامی بنگلہ دیش کے کروڑوں عوام کے مذہبی اسلامی خیالات کے برعکس وہ بنگلہ دیش کو بھارت کا طفیلی ملک بنانے کی خطرناک ر وش پر چل پڑے تھے، جس کی وجہ سے قیامِ بنگلہ دیش کے فوراً ہی بعد بنگلہ دیشی عوام میں اُن کی ’سیاسی معراج ‘ پر پہنچی ہوئی مقبولیت ایکدم زمین بوس ہوگی ،کسی بھی بنگالی مسلمان کے خالص بنگالی ہونے اور بنگالی شناخت وپہچان پر جہاں وہ اپنی جگہ بہت فخر محسوس کرتا ہے وہاں اِس سے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ ہر بنگالی اپنی قومی شناخت و پہچان سے زیادہ خالص ‘ کھرا ‘ دوٹوک اور بے باک مسلمان ہونے پر جتنا پختہ یقین رکھتا ہے، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے، جس کے سچے واقعات آج تک برصغیر کی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے موجود ہیں پڑھے جاسکتے ہیں اِس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا بنگالی مسلمان بھائیوں کے ساتھ مغربی پاکستان کے مسلمان بھائیوں نے ماضی میں یقیناًسیاسی سطح پر ہمیشہ بڑا نارو اسلوک اختیار کیا جس پر اُنہوں نے اپنی سخت ناراضگی کا برملا اظہار کیا اب وہ ایک آزاد وخود مختار اسلامی ریاست بنگلہ دیش کے وارث ہیں وہ اُن کا اپنا ملک ہے مگر ایک آزاد وخود مختار ریاست کے عوام کی اکثریت کے بنیادی حقوق کو بزور قوتِ کچلنے کی جب بھی کوئی ریاستی کوشش کی جائے گی تو دنیا کے دوسرے مہذب اور جمہوری ملکوں کی جانب سے آنے والی جائز تنقید بنگلہ دیش کی حکومت کو نہ صرف سننی پڑے گی، بلکہ اُس جائز تنقید وتنقیض کا فوری سدباب کرنا بھی بنگلہ دیشی حکومت کا فرض بنتا ہے 2014 کے شروع میں بنگلہ دیش میں نئی آئینی مدت کی حکمرانی کے لئے عام انتخابات ہونے والے ہیں ماضی کے جتنے بھی بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوئے،
اُن انتخابات کے برعکس‘ اِس بار لگتا ہے ایک بار پھر 1971 کی انتہائی تلخ اور بھیانک تجربوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بنگلہ دیش کے انتخابات میں مداخلت کے نام پر اپنے ’پَر‘ تولنا چایتی ہے 1971 میں بھی اِسی سے ملتا جلتا ’فسادی ‘ ڈرامہ ’را‘ نے آسامی غنڈوں کی مدد سے بنگلہ دیش میں تاریخِ ارضی کا بڑا خونریز المیہ اسٹیج کیا تھا بنگلہ دیش میں ہونے والے الیکشن 2014 کی اہمیت کو سرسری نہ جانیئے بھارت کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ الیکشن حسینہ واجد کی پارٹی جیتے اِس کے لئے کچھ بن پڑے نئی دہلی والے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اُنہیں اِس کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں وہ بنگلہ دیش کی ’اسلامی ‘ شناخت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ‘ جبکہ بنگلہ دیش کے اکثریتی مسلمان بڑے اعتدال پسند، روشن، خیال وسیع النظر اوربڑے وسیع القلب مسلمان ہیں نئی دہلی والوں کو بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا یہ طرزِ ملی بھی پسند نہیں دیکھا نہیں آپ نے ،’بنگلہ بد ھو‘ کی بیٹی حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے حالیہ چند مہینوں میں حکومتی طاقت کے زور پر بنگلہ دیش کی چند اسلامی جماعتوں کو نہ صرف کالعدم قرار دیا بلکہ بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ہر انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے والی ایک سیاسی جماعت’بنگلہ دیش جماعتِ اسلامی ‘ کے مقبول عوامی لیڈروں پر نام نہاد ’غداری ‘ کا مقدمہ چلا کر اُنہیں عمر قید او ر پھانسی کی سزائیں دیدی گئیں انتہائی عجلت میں کیئے جانے والے اِس بزدلانہ و احمقانہ فیصلے نے بنگلہ دیشی تحریکی عوام میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے خلاف نفرت کی ایسی لہر دوڑا دی ہے، جو وقت کے سا تھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ہوسکتا ہے اِس بار ابنگلہ دیش کے الیکشن میں شیخ حسینہ واجد ساری ساری بھارتی پلڑے میں بیٹھنے کی وجہ سے یہ الیکشن بُری طرح ہار جائے ایک طرف بنگلہ دیش میں لمحہ لمحہ میں صورتحال میں تبدیلی پیدا ہورہی ہے تو دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی ’ را‘ کے زرخرید ہندو میڈیا ماہرین نے بنگلہ دیش کے گاؤں دیہاتوں کے عوام کو بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ( بی این پی ) سے گمراہ کرنے کے لئے اُس بڑی پارٹی کے خلاف الیکن مہم اُس جماعت کے قائدین پر جتنے جھوٹے الزامات عائد کررہی ہے اُن میں بنگلہ یش نیشنل پارٹی کے وائس چیئر میں طارق رحمن جو کہ سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم مسز خالدہ ضیاء (بی این پی کی چیئرپرسن ) کے بیٹے ہیں اُن پر ’’آئی ایس آئی‘‘ کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے اور مالی امداد حاصل کرنے کے انتہائی لغو ‘ بے بنیاد ااور بے سروپا الزامات کی کہانیاں گھڑ کر عوام کو سنائی جارہی ہیں، یہ گھسہ‘ پٹہ اور فرسودہ اور کہنہ طرزِ عمل نئی دہلی والوں کی بغل بچہ جاسوسی تنظیم ’را‘ ہمیشہ اُس وقت بروئےِ کار لاتی ہے جب اُسے پختہ یقین اور یہ حتمی ا حساس ہوجاتا ہے اُس کی چلائی ہوئی وہ تمام چالیں بے اثرہورہی ہیں جن پر اُسے بڑا ناز اور تکبر تھا تو وہ یہی کچھ کرنے پر اتر آتی ہے بنگلہ دیش میں یہ ہی کچھ ہورہا ہے جہاں ’را‘1971 کے بعد ایک بار پھر اپنے زر خرید میڈیا کے چند بکاؤ چمچوں کے ذریعے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کے غلیظ‘ انتہائی قابلِ نفریں ‘ شرمناک اور رکیک الزامات کا کمزور سہارا لے بنگلہ دیش کی ایک معزز سیاسی جماعت کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنانے کی شیطانی حرکات میں مصروفِ عمل ہے بنگلہ دیش کے تقریباً15 کروڑ عوام پاکستان کے عوام سے ہر لحاظ سے باشعور اور جہاندیدہ معلوم ہوتے ہیں اُنہوں نے جہاں بڑھتی ہوئی غربت پر قابو پانے کا ہنر ہم سے پہلے سیکھ لیا وہاں بڑی حد تک اُنہوں نے اپنی آبادی کے پھیلاؤ پر بھی قابو پالیا ایسی قوم یقیناًکسی بھی حالت میں اب بھارتی بالادستی کو قبول نہیں کیسے کرسکتی ہے بنگلہ دیش کے عوام ایک بار پھر اپنے لئے نئے حکمرانوں کا انتخاب کرنے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں اُن کے تعلیمی اور اخلاقی سمجھ بوجھ کے معیار کو دیکھتے ہوئے یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ اب یا آئندہ کبھی بھی بھارتی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کریں گے اسلامی فلسفہِ حیات کا عکسِ صیم بنے ’بندہ ِٗ حر‘ کی مانند آزاد ہی رہیں گے ۔