Posted date: April 13, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
بھارت پاکستان کا دشمن ہے لیکن حیرت انگیز اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی مسلمان ممالک بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کا دم بھرتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں سے کئی ایک بھارت کو ترجیح بھی دیتے ہیں اور اُس کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر بھی کرتے ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ بھارت کی سازشوں کو سمجھیں اور مسلمانوں کے خلاف اس کے خبثِ باطن کا احساس کریں۔مسلمانوں کے خلاف بھارت کے اقدامات صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے لہٰذا اس کو اہمیت دینا بھی سب کو ہی چاہیے۔حال ہی میں سعودی اخبار سعودی گزٹ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار نے بھارت سرکار کے مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعات میں زبردستی ملوث کرنے کا ذکر کیا ہے۔ بھارت میں مسلمان جس کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں وہ کبھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا اور آج کل کے تیز ترین میڈیا کے دور میں تو یہ خبریں بھارت حکومت چاہے بھی تو نہیں چھپا سکتی۔ اس جمہوری معاشرے میں ایک گائے کی حیثیت انسانوں سے بڑھ کر ہے ابھی حال ہی میں ایک پچپن سالہ معمر شخص پہلو خان کو صرف اس جرم میں ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے اس قدر مارا گیا کہ وہ بیچارا جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ گزشتہ سال بھی گائے کا گوشت پکانے کے جرم میں مسلمان شہریوں کو قتل کیا گیا جبکہ بعد میں یہ شک غلط بھی ثابت ہوا اور وہ گوشت بکرے کا نکلا۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے لیکن نہ صرف اپنی بلکہ دنیا کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کی مذہبی اور معاشرتی ہر قسم کی آزادی کو سلب کیے ہوئے ہے۔ وہاں ہر روز مسلمانوں پر بالخصوس اور دیگر اقلیتوں پر بالعموم تشدد کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے اکثر واقعات میں مسلمانوں، خاص کر نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے سا لہا سال انہیں جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور بعد میں کچھ کیسوں میں عدالتیں انصاف کا بول بالا کرتے ہوئے کئی سال بعد انہیں بری کر دیتی ہیں یعنی پھر وہی تاثر دینے کی کوشش کہ بھارتی عدالتیں مسلمانوں کو برابر کے حقوق دے رہی ہیں۔ کسی بھی دھماکے اور دہشت گردی کے الزام میں بے شمار مسلمان نوجوانوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے،برسوں ان پر مقدمے چلتے ہیں، انہیں پابند سلاسل رکھا جاتا ہے، عدالتیں فیصلے لٹکائے رکھتی ہیں اور یوں برسوں بعد اگر یہ نوجوان باہر نکلتے ہیں تو وہ اپنی زندگیوں کا بہت بڑا حصہ گنوا چکے ہوتے ہیں اور ایک ایسا نقصان ہو چکا ہوتا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ 2006 میں ما لے گاؤں میں ہونے والے دھماکوں میں پینتیس افراد ہلاک ہوئے یہ دھماکے مسلمانوں کے ایک قبرستان میں ہوئے تھے اور اس جرم کی پاداش میں کئی ایک مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔بھارتی میڈیا نے بھی مسلمانو ں کو ذمہ دار ٹھرایا تھا لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ یہ ہندو شدت پسندوں کی کاروائی تھی،یہی کہانی بھارت میں ہر جگہ دہرائی جا رہی ہے اس میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی کوئی قید نہیں۔ حکومت چاہے بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی مسلمانوں کے حالات وہی رہتے ہیں ان ہی کے خلاف دہشت گردی ہوتی ہے اور انہیں ہی پکڑ لیا جاتا ہے۔ مالے گاؤں کے دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیے گئے محمد حسین فاضلی اور محمد رفیق شاہ جو کشمیری طلبا تھے کو بارہ سال بعد اس الزام سے بری کیا گیا اگرچہ تمام شواہد حکومتی دعوے کے خلاف جاتے رہے فاضلی کے تعلیمی ادارے کے رجسٹربتا رہے تھے کہ دھماکے کے وقت وہ اپنے کمرہ جماعت میں تھا اس کے استاد اور ہم جماعت بھی اس بات کی گواہی دیتے رہے لیکن عظیم جمہوریت کی انصاف پسند عدالتیں یہ فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہو رہی تھیں اور انہوں نے یہ فیصلہ کرنے میں بارہ سال لگائے اور ان نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک بلکہ ختم کر دیا گیا۔یہ واقعہ صرف اِن دونوجوانوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آیا بلکہ یہ بھارت میں ایک معمول کی کاروائی ہے۔ بنگلور کے چار اور نوجوانوں کا معاملہ بھی بھارت کا اپنے مسلمان عوام کے ساتھ متعصبانہ رویے کی ایک اور مثال ہے۔ محمد علی، جاوید علی، شبیر احمد اور محمد رفیق کو 2008 میں ممبئی حملوں کے لیے 35 کلو بارود فراہم کرنے میں مدد دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، انہیں بھی 2017 اپریل میں بری کر دیا گیا یعنی عظیم جمہوریہ کی عظیم عدالتوں کو اتنے سال لگے اپنے اِن شہریوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں اور وجہ صرف یہ تھی کہ یہ تمام مسلمان تھے۔ اپنے مسلمان شہریوں کے بارے میں بھارت کا رویہ ہمیشہ ہی اتنا ظالمانہ اور نا انصافی پر مبنی رہا ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں باقی اقلیتیں بھی اس کے سرکاری مظالم کے نشانے پر ہمیشہ ہی رہیں جس کی ماضی میں بے شمار مثالیں تو موجود ہیں ہی حالیہ ایک مثال یہ بھی ہے کہ جھار کھنڈ میں مسلمان اور خاص کر عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنایا جا رہا ہے اور اس عمل میں یہاں کا وزیراعلیٰ خود بھی ملوث ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ تمام لوگ چونکہ پہلے ہندو تھے اس لیے انہیں دوبارہ ہندو ہو جانا چاہیے یہ ہے بھارت کا اپنی اقلیتوں کے خلاف رویہ اور مسلمان تو خیر بیس کروڑ ہونے باوجود انتہائی بے بس ہیں۔ کشمیر میں آئے روز مسلمان غائب کر دیے جاتے ہیں اور پھر اُن کی لاشیں ہی ملتی ہیں بلکہ بسا اوقات ایسا بھی نہیں ہوتا اور یہ مسلمان نوجوان کبھی دوبارہ اپنے گھروں کو نہیں آتے۔ بھارت جمہوریت کا دعویٰ ضرور کر لے کیونکہ وہاں کے لوگ اپنی حکومت کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں اورچونکہ عوام کی اکثریت ہندو ہے اس لیے وہ ہندو حکمران منتخب کرتے ہیں اعتراض اس پر بھی نہیں کیونکہ ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن بھارت کے متعصب حکمران شدت پسندہندؤں کو ہر طرح کی چھوٹ دے دیتے ہیں اور ان کا کیا دھرا معصوم مسلمانوں کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ سب کچھ ہوتا ہے بڑے پیمانے پر اور بڑی باقاعدگی سے ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کے خلاف بین الاقوامی طور پر اور خاص کر مسلم اُمہ میں وہ شور نہیں اٹھتا جو اٹھنا چاہیے۔ دنیا یہ سب کچھ جانتی ہے لیکن خاموش ہے ہمیں اپنی کوششوں سے دنیا کو اس صورت حال سے آگاہ کرنا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ بھارت کے مسلمان بھی ایک محفوظ حال اور مستقبل کے حقدار ہیں۔