بھارت میں تجارتی نمائش۔۔۔ چالیس ڈالر جرمانہ
نغمہ حبیب
آج کی دنیا میں اگر کوئی ملک کسی مد میں اپنی تمام تر ضروریات پوری کربھی سکتا ہے تو بھی ورائٹی اور کوالٹی کی بھر مار ہونے کی وجہ سے دوسرے ممالک سے تجار ت کیے بنا نہیں رہ سکتااور تجارت ہمیشہ دو طرفہ ہی ہوتی ہے چاہے اس کا تناسب کچھ بھی ہو ۔ یہ تجارت اگر پڑوسی ممالک سے ہو تو اس کے اخراجات بھی کم ہوتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ تجارت بھی ممکن رہتی ہے یوں اسے نعمت سمجھنا چاہیے اگر نزدیک ترین منڈی میسر آجائے۔
پاکستان اگر چہ بہت بڑا سرمایہ کار اور تاجر ملک نہیں ہے لیکن انتہائی زیادہ آبادی والے خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے بڑی منڈیاں اس کو بہت نزدیک پڑتی ہیں جن میں سے ایک پڑوسی ملک بھارت بھی ہے جس سے برابری کی بنیاد پر دو طرفہ تجارت ہماری خوش قسمتی ہوتی لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت جیسا ملک اس کا پڑوسی ہے جو ہر صورت میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے ۔پاکستان کے حکمران اپنی تمام تر کوشش کے باوجود بھارت کو برابری کی بنیاد پر تجارت پر راضی نہیں کر سکے ہیں اور بھارت اپنی بری نیت کا ہر موقع پر اظہار کر چکا ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدے کی رو سے تجارتی ویزہ کے لیے پولیس رپورٹ ضروری نہیں ہوگی لیکن بھارت نے نئی دہلی میں ہونے والی عالیشان پاکستان نامی تجارتی نمائش کے لیے جانے والوں کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانے پر اور پولیس رپورٹ نہ دینے پر چالیس ڈالر کے حساب سے جرمانہ کیا ۔ یعنی ایک نمائش میں شرکت کرنے پر بھی پاکستانیوں کی توہین کی اور ان کو قابل اعتبار نہیں سمجھااور خود ہی اپنے بھی اصول و ضوابط بالائے طاق رکھ دئیے اورایسا صرف اس لیے کیا گیاتاکہ یہ تاجر سبکی محسوس کریں اور آئندہ بھارت میں اپنی کوئی چیز متعارف نہ کرا سکیں ۔ہاں ہمارے ملک کے حکمران خودبھارت سے تجارت کے سب سے بڑے مدعی بن جاتے ہیں کیونکہ یہاں ان کا ذاتی فائدہ ہے جو ان کے لیے ملکی مفاد سے بڑھ کر ہے کیونکہ انہیں اپنی تجارت ہر صورت بڑھانی ہے۔کہیں انہیں امن کا پیا مبر بننے کا شوق ہے تاکہ دنیا کی نظروں میں عظیم بن سکیں اور کہیں بہت روشن خیال۔ دوستی میں اعتراض کسی پاکستانی کو نہیں ،مجھے بھی نہیں لیکن ملک اور اس کے وقار کی قیمت پر نہیں ۔ پہلے ہم بنیادی مسئلہ یعنی کشمیر حل کرلیں ،اس کے ساتھ پانی کا مسئلہ تو خود بخود حل ہو جائے گا اور اسی طرح اگردیگر سرحدی تنازعوں کو حل کر لیں توپھر امن قائم کرنے کے لیے کسی ثالث کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی امن کی آشا جیسے میڈیا پروگراموں کی ۔ ویسے یہ کوشش کسی ایک پروگرام یا چینل تک محدود نہیں ہمارا ہر ٹی وی چینل سرحد پر فائرنگ اور شہادتوں کی خبر دے کر اپنے نیوز چینلز پر بالی ووڈ کے ستاروں کی خبریں، ان کی فلموں کے وا ہیات منا ظر دکھانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور یہاں سے کوئی خبر نہ بھی ملے تو بھی کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارے میڈیا کے پاس لاتعداد ایسے اشتہارات موجود ہیں جن میں کترینہ کیف ،کرینہ کپور اور کئی موجود ہیں۔ عوام کی تسلی کے لیے اگر کوئی اینکر بیٹھ کر بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں کے خلاف بات بھی کرتا ہے تو اسی گروپ کا انٹر ٹینمنٹ چینل اس کا کوئی نہ کوئی ڈراما چلا رہا ہوتا ہے ۔گلو بلائزیشن کے نام پر ہم اپنی اقدار کا بیڑہ ویسے ہی غرق کر چکے ہیں لیکن بھارت کے معاملے پر تو مسئلہ ہی کچھ اور ہے یہاں تو ہم اپنے ملک کی بہتری پر توجہ دینے کی بجائے اُن کی ترقی کو فخرسے پیش کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی صنعتی ترقی پر اتنے نازاں نہیں ہوں گے جتنا ہم اُس پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک بڑا اور صنعتی طور پرترقی یافتہ ملک موجود ہے۔ جواباََ وہاں سے عوام پاکستان مخالف نعروں والی جماعت کو منتخب کرتے ہیں اور مودی کو پاکستان دشمنی کے ہی بدلے ووٹ دیا جاتا ہے بلکہ وزیراعظم بنا دیا جاتاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس نے بھی اپنے دور اقتدار میں کبھی پاکستان کے ساتھ نہ خلوص دکھا یا نہ دوستی اور نہ امن کی کوشش کی بلکہ ہر طرح کے الزامات پاکستان پر ہی ڈالتا رہا ممبئی حملے بھی سب کے ذہن میں ہیں ، سمجھوتہ ٹرین، مالے گاؤں ، پارلیمنٹ حملہ اور ان جیسے بے شمار واقعات جب بھارت نے واقعہ ہوتے ہی بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے واقعے کی فوری خبر کے ساتھ پاکستان کے ملوث ہونے کا اعلان کر دیا چاہے پھر یہ بات ثابت ہوجا تی کہ واقعے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ مجرم پکڑے بھی جاتے تھے جو خا لصتاََ بھارتی شہری ہوتے تھے اور ان میں کرنل پروہت جیسے لوگ بھی تھے جو بھارت سرکار کا ملازم اور فوج کا حاضر سروس کرنل تھا ۔لیکن بی جے پی اور خاص کر مودی کا معا ملہ تواور بھی خاص ہے کہ یہ اپنی پاکستان دشمنی کا ہی ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اپنے اس وصف کے لیے ہی شہرت رکھتے ہیں لہٰذاان کی حکومت میں تو کسی خیر کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔
بھارت کی طرف سے مسلسل عدم تعاون کی پالیسی پر حکومت پاکستان کو نہ صرف احتجاج کرنا چاہیے بلکہ اس کا مؤثر جواب بھی دینا چاہیے اور قومی خود داری کا مظاہر ہ بھی کرنا چاہیے اور تجارتی حجم پر بلکہ تجارتی روابط پر بھی سوچنا چاہیے کہ کس طرح یا کن شرائط پر اور کتنارابطہ استوار کرنا چاہیے اور ثقافتی اور میڈیا کے میدان میں تو اس سے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ماضی حال اور مستقبل تینوں کا مسئلہ ہے اور ان تینوں کو محفوظ رکھناحکومت بلکہ عوام کی بھی برابر کی ذمہ داری ہے ۔ ورنہ سوچ لینا چاہیے کہ کہیں ہم اپنی شناخت اور پہچان نہ کھودیں اور ہمارے مسائل میں مزید اضافہ نہ ہو ۔ ہماری پالیسیاں ہمارے فائدے کے لیے بننا چاہیے نہ کہ دوسروں کے لیے اور نہ ہی نام ونمود اور اپنے مفادکے لیے۔