بھارت میں زرعی آرڈیننس
نغمہ حبیب
بھارت خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے ۔ یہاں عوامی حکومتوں کے تسلسل کی وجہ سے یہ جمہوریت کی عمومی تعریف پر پورا بھی اترتا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ یہ اپنی سب سے بڑی مذہبی آبادی کو ہر قسم کی آزادی بھی دیتا ہے لیکن دوسری طرف یہ تمام اقلیتوں کے لیے ہر گز جمہوری رویہ نہیں رکھتا ۔ اسی طرح جب یہ چاہے کوئی بھی قانون کسی بھی دبے ہوئے طبقے کے لیے لاگو کر دیتا ہے ۔ یہی اس نے حال ہی میں زرعی آرڈیننس جاری کر کے کیا ہے جس سے بھارت کے کسانوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔ مئی 2020 میں متعارف ہونے والے اس قانون پر ہر یانہ، پنجاب اور یوپی کے کسانوں نے احتجاج بھی کیا ہے ۔ اس بل کے تحت زرعی پیداوار کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا اور اجازت دی گئی ہے کہ منڈی کے باہر بھی زرعی اجناس کی خریدو فروخت ہو سکے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منڈی میں کم سے کم جو قیمت رکھی جاتی تھی وہ ختم ہوتی جائے گی اور تاجر اس کے خریدوفروخت کھلی مارکیٹ میں کریں گے اور یوں فصلوں کی قیمتیں جو پہلے حکومت کی طرف سے مقرر ہوتی تھیں اب ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائیں گی اور ان کی مرضی کی ہو گی اور چھوٹا کسان ان کے آگے مجبور ہو کر رہ جائے جب کہ یہ قیمتیں بڑے خریداروں اور بڑے زمینداروں کی مرضی سے مقرر کرلی جایا کریں گی ۔ کانگریس نے بھی اس بل کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے کسان کش قرار دیا ہے ۔ پنجاب جو بھارت میں اناج اور غلے کا گھر سمجھا جاتا ہے وہ اس آرڈیننس سے بُری طرح متاثر ہوگا یہاں کے لاکھوں آڑھتی روزانہ خریدو فروخت کرتے ہیں اور منڈی کے کمیشن سے صوبے کو پینتیس ہزار کروڑ تک کی آمدن ہوتی ہے یوں صوبے کو بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے جس پر پنجاب کو شدید اعتراض ہے یہی حال ہریانہ کا ہے جہاں کسان احتجاج کر رہے ہیں ۔ بھارت کی بی جے پی سرکار ہر جگہ اپنے من مانے قوانین راءج کر رہی ہے اور خاص کر پنجاب جیسے صوبے کی تو اُسے کوئی پرواہ نہیں اور اس لیے یہاں آزادی کی تحریک مرمر کر ابھرتی ہے جس کے لیے بھارت پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے ۔ اس وقت بھارت خود کو دنیا کے سامنے شائننگ انڈیا ثابت کرنے کے لیے اپنے بڑوں کو مزید بڑا بنانے کی دھن میں ہے چاہے اس کا کمزور طبقہ دب جائے حالانکہ اس نے یہ آرڈیننس پہلے بہار میں بھی آزمایا تھا جس پر وہاں کی کسان برادری نے زبردست احتجاج کیا تھا لیکن وہ اسے اب دوسرے زرعی صوبوں میں آزما رہا ہے اور ویسا ہی احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن بات وہی ہے اسے امبانی اور شیٹھی جیسے لوگوں کو نوازنا ہے اور اس طرح سے بھارت کے غریب کسان ان بڑے ناموں کے غلام بن سکیں گے اور بھارت کہہ سکے گا کہ اس کے کچھ نام دنیا کے امیر ترین ناموں میں سے ہیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ یہ پالیسی بھی مودی کی دوسری پالیسیوں کی طرح ناکام ہوتی نظر آرہی ہے اب تک اسے بین الاقوامی سطح پر ہزیمت اٹھانا پڑی ہے، ایران کے گیس پاءپ لائن منصوبہ ، پاکستان کے ہاتھوں اس کی فضائیہ اور اکثر اوقات بری افواج کے نقصانات او رسبکی، نیپال کے ہاتھوں ہزیمت اور سری لنکا کا اس کے خلاف دہشت گردی کی جنگ جیتنا سب اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور سب سے بڑھ کر چین نے جو اس کے ساتھ لداخ میں کیا اس نے بھارت کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی ۔ اب اس کی ناکامی کی باری اندرونی طور پر ہے اور اس وقت پنجاب اس زرعی آرڈیننس کے خلاف سرا پا احتجاج ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ پنجاب کسی بھی وقت مودی کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے وہاں خالصتان کو دبایا گیا ہے مارا نہیں جا سکا ہے سکھ جانتے ہیں بھارت صرف ہندءوں کا ہے نہ یہاں کروڑوں مسلمان محفوظ ہیں نہ کروڑوں سکھ ، دلت اورعیسائی کسی بھی وقت کسی کے ساتھ کچھ بھی بُرا ہو سکتا ہے اور جب تک مودی کی حکومت ہے کبھی مسلمانوں کے خلاف شہریت کا قانون آئے گا اور کبھی سکھوں کے خلاف زرعی قوانین بنیں گے کیونکہ مودی جانتا ہے بھارت کا خوراک کے معاملے میں زیادہ دارومدار پنجاب پر ہے اور پنجاب سکھوں کا ہے ہندءوں کا نہیں اس لیے اس کے خلاف کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔