Posted date: February 27, 2021In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
اس باریعنی سال 2021میں بھارت نے اپنا یادگار یوم جمہوریہ منایا۔یوں تو اکثر یہ دن کشمیر کے حوالے سے بھارت کے لیے یادگار بن جاتا ہے لیکن اس بار یہی کام بھارت کے کسانوں نے کیا بلکہ وہ تو وہاں تک پہنچے جہاں بھارت اپنے یوم آزادی کی مرکزی تقریب منا تا ہے اور وزیراعظم ترنگا یعنی بھارت کا قومی پرچم لہراتا ہے اور تقریر کرتا ہے یہی پر جواہر لال نہرو نے بھارتی جھنڈا پہلی بار 15اگست1947کو لہرایا تھا اور اب تک یہ روایت چلی آرہی ہے میری مراد لال قلعہ دہلی سے ہے جہاں اس بار یوم جمہوریہ پر بھارت کے کسانوں نے نشان صاحب لہرایا۔نشان صاحب سکھوں کا مقدس پرچم ہے جسے وہ اپنے گردوارں پر لہراتے ہیں۔
بھارتی پارلیمنٹ جس میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہے نے ستمبر 2020میں نیا قانون منظور کیا جس کی تین شقوں کے خلاف بھارت بھر میں کسانوں نے احتجاج شروع کیا ان کا مطالبہ ہے کہ پاس کیا گیا نیا قانون ختم کیا جائے اور وہ اس کی منسوخی سے کم کسی چیز کو منظور نہیں کریں گے۔ستمبر سے لے کر اب تک یہ کسان احتجاج کر رہے ہیں اور اس احتجاج کو دنیا کا سب سے بڑا احتجاج بنا دیا ہے۔حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے دس ادوار ہو چکے ہیں لیکن تاحال کوئی حل نکلتا نظر نہیں آرہا۔کسانوں نے اپنا احتجاج بِل کے منظور ہوتے ہی شروع کیا اور سب سے پہلے پنجاب کے سکھ زمینداروں نے اس خطرے کو محسوس کیا اور اس احتجاج کی ابتداء کی اور آج بھی وہ اس احتجاج کا ہراول دستہ ہیں۔ ستمبر 2020میں حکومت نے جب نئے زرعی قوانین منظور کیے تو کسانوں کو اعتراض ہوا کہ ان سے مشورہ کیے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب جو کہ بھارت کی کُل گندم کا بیس فیصد اور چاول کا نو فیصد اکیلے پیدا کرتا ہے اسی طرح وہ دنیا کا دو فیصد کپاس پیدا کرتا ہے یوں یہاں کے کسانوں کا ملکی زرعی ترقی میں بہت بڑا حصہ ہے وہاں کے کسانوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ منڈی سسٹم پر ضرب لگائی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں یہ نظام ختم ہو جائے گا اور کسان تاجروں کے رحم و کرم پر آجائیں گے۔اس قانون کے تحت کمیشن ایجنٹس کا کردار بھی ختم ہو جائے گا جو کہ منڈی میں خریدار کے ساتھ رابطے کے ذریعے کے علاوہ انہیں آسان شرائط پر قرضے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں تاکہ وقت پر خریداری ہو سکے اور ساتھ ہی ساتھ یہ فصل کی مناسب قیمت بھی لگاتے ہیں۔کسانوں نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ فصل کھلے بازار میں اپنے طے شدہ نرخوں پر بیچی جائے بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت خود پہلے کی طرح کم سے کم نرخ طے کرے یعنی سپورٹ پرائس دے تاکہ تمام کسان اسی مقرر کردہ قیمت پر اپنی فصل فروخت کر سکیں اور یوں منڈی سے باہر کے تاجر ان کی مجبوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔انہی مطالبات کے ساتھ کسانوں نے اپنی تحریک کو شروع کیا جسے بھارت کے بے لگام اور بے تُکے میڈیا نے مختلف نام دیئے۔ایک دلچسپ نام انہیں ”خالصتانی دہشت گرد“کا دیا گیا اور یوں خود ہی انہیں ایک نئی جہت مہیا کی اور شاید اسی لیے انہوں نے اپنا مقدس جھنڈا یعنی نشان صاحب بھی اٹھا لیا اور لال قلعہ تک پہنچ گئے۔کسانوں نے اپنی ”دہلی چلو“ تحریک بِل پاس ہوتے ہی شروع کی اور دہلی کی طرف چل پڑے اور 26نومبر کو پچیس لاکھ لوگوں نے اس احتجاج میں حصہ لیا۔پولیس نے ان کسانوں کے خلاف کاروائی کی،واٹر کینن کے ذریعے ان پر پانی کی تیز دھاریں چھوڑی گئیں لاٹھی چارج بھی ہوا لیکن پھر بھی دو سے تین لاکھ کسان دہلی تک پہنچ ہی گئے اور دھرنا دیا اب اس احتجاج میں صرف پنجاب اور ہریانہ کے کسان نہیں تھے بلکہ پورے بھارت سے کسان اس میں شامل ہوتے گئے۔چودہ ملین ٹریکٹر ڈرائیور بھی اس مارچ میں شامل ہو گئے۔دسمبر کے شروع میں حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت ناکام ہونے کے بعد ملک گیر احتجاج کیا گیا۔ہریانہ میں کسانوں نے ٹریفک روکے بغیر ہائی وے اور ٹول پلازہ پر قبضہ کر لیا۔اس کاروائی کے نتیجے میں حکومت نے بِل میں کچھ ترامیم کیں جسے کسانوں نے نامنظور کر دیا۔سپریم کورٹ نے حکومت کو بِل پر عملدرآمدروکنے کو کہا جسے حکومت نے نہ مانا اور کسانوں نے بھی اعلان کیا کہ اگر انہیں واپس جانے کو کہا جائے گا تو وہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ اپنا مطالبہ جاری رکھیں گے کہ بِل کو منسوخ کیا جائے۔کسانوں نے28جنوری کو مزید مطالبات شامل کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے جو اس قانون کو ختم کرے،حکومت کم سے کم قیمت خود مقرر کرے اور فصل خود خریدے،روایتی خریداری کا نظام برقرار رکھا جائے،کم سے کم قیمت پیداواری قیمت سے50فیصد زیادہ رکھی جائے،ڈیزل کی قیمت کسانوں کے لیے50 فیصد کم رکھی جائے،فصل کے بقایا جات جلانے پر سزا اور جُرمانہ ختم کیا جائے۔یوں ابتدائی مطالبات کے ساتھ مزید مطالبات بھی شامل ہو گئے ہیں۔کسان تحریک اتنے بڑے پیمانے پر بغیر کسی ایک لیڈر کے چلائی جا رہی ہے جس سے اندازا ہوتا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی مقصد نہیں۔ بغیر لیڈر کے یہ تحریک پنجاب سے نکل کر پورے بھارت میں پھیلی اور پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔کینیڈا، امریکہ،برطانیہ، آسٹریلیا بلکہ جہاں جہاں بھارتی اور خاص کر سکھ موجود ہیں وہاں وہاں احتجاج کیا گیا۔اس بِل کے بارے میں ایک نکتہء نظر یہ بھی ہے کہ بھارت کی بہت بڑی زراعت پنجاب میں ہو رہی ہے اور یاد لت اور اچھوت اس پیشے سے منسلک ہیں جن کے لیے بھارتی معاشرے اور حکومت دونوں میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔سکھ کسانوں میں بھی ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو دلت سے سکھ ہوئے لیکن وہ بطور سکھ دلت ہندو سے معاشرتی طور پر بہت بہتر حالات میں ہیں لیکن ”ہندؤتا“ کی حامی حکومت کو نہ تو سکھوں سے کوئی ہمدردی ہے نہ دلتوں سے ورنہ اقوام متحدہ کہ درخواست پر ہی ان کے مطالبات پر غور کر لیتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے بھارت کی اونچی ذات کا ہندو متاثر نہیں ہو رہا۔ یہ احتجاج اور ان کے مطالبات بڑھتے ہی جا رہے ہیں جو یقینا بھارت سرکار کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے۔