بھارت کو عالمی برادری سے کوئی خوف ہے نہ خطرہ اور نہ ہی کشمیری عوام کی کوئی پرواہ
Posted date: July 16, 2020In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے یہ ایک بات ہی نہیں حقیقت ہے یہی کشمیر ہے جس سے پاکستان کے دریانکل کر آتے ہیں اور پاکستان کے کھیتوں کھلیانوں میں خون کی طرح دوڑ کر اس کی سرسبزی شادابی اور زندگی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ قدرتی طور پر بھی پاکستان کا حصہ ہے،جغرافیائی بھی، تاریخی بھی اور سب سے بڑھ کر مذہبی بھی لیکن اس کے باوجود اس پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور آج اکیسویں صدی میں بھی یہ ایک غلام خطہ ہے۔ اس کے لوگ ہر وقت بھارت کے رحم وکرم پر ہیں اُس کی مرضی کہ وہ اس کے جوانوں کو مارے اس کے بوڑھوں پر ہاتھ اُٹھائے ننھے نواسے کے سامنے بوڑھے نانا کو گولیوں سے بھون دے یا اس کی بیٹیوں کی عصمتوں سے کھیلے۔کشمیر کے بچے بھارتی درندگی سے محفوظ ہیں نہ بڑے نہ مرد نہ عورت۔ اب تک لاکھوں سے زائد کشمیری آزادی کے حصول کی راہ میں اپنی جانیں دے چکے ہیں اور لاتعداد یتیم بچے اور بیوہ عورتیں کشمیر کی وادی جنت نظیر میں بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت یہ سب کر رہا ہے اور بڑی دیدہ دلیری سے کر رہا ہے اُسے عالمی برادری سے کوئی خوف ہے نہ خطرہ اور نہ ہی کشمیری عوام کی کوئی پرواہ۔نہ ہی عالمی برادری اس پر وہ زور ڈال رہی ہے جو اُسے ڈالنا چاہیے کیونکہ وہ بھارت کونا راض نہیں کرنا چاہتی اور اس کی وجوہات دو ہیں ایک تو یہ کہ کشمیر ایک مسلمان ریاست ہے دوسری بھارت اُن کے لیے ایک بڑی منڈی ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنی بے تحاشا بڑی آبادی کے لیے ہر نوعیت کی خریداری دھڑادھڑ کرتا ہے ساتھ ہی وہ ان ممالک سے اسلحہ خریدتا ہے۔ اسی کشمیر کی جنگ آزادی کو بدنام کرنے کی خاطر وہ اسے دہشت گردی سے جوڑ کر پاکستان کو اُس کا ذ مہ دار قرار دیتا ہے۔کشمیر ہی وہ مسئلہ ہے جس پر پاکستان اور بھارت تین کھلی جنگیں لڑ چکے ہیں اور بے شمار جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے لیکن بھارت کی ہر سرکار اس بات پر اڑی رہی ہے کہ کشمیر کو دباکر رکھنا ہے اسے نہ یہاں کے مظلوم عوام کی فکر ہے نہ دنیا کا خوف اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی پرواہ۔ ان قراردادوں کی پرواہ تو خود اقوام متحدہ کو بھی نہیں بلکہ اس بار بھی اس نے بھارت کو سلامتی کو نسل کا عارضی ممبر منتخب کیا ہے اور وقتا فوقتاً اسے مستقل ممبر بنانے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے جس کا مطلب نہ صرف مسئلہ کشمیر کو دفن کر دینا ہے بلکہ بر صغیر کے امن کو آگ لگا دینا ہے کیونکہ بھارت جو اپنی پیدائش کے وقت سے ہی اس خطے کا چوہدری بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اُس کے تعلقات اپنے کسی پڑوسی سے بھی اچھے نہیں۔ چین پاکستان بنگلہ دیش نیپال سری لنکا سب ہی اُس کی دہشت گردی کا شکار ہوتے رہتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اسے ہرمحاذ پر سبکی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیپال جیسا چھوٹا ملک اپنا نیا تقشہ جاری کرتا ہے تو اس میں بھارت کے ساتھ متنازعہ علاقے اپنے ملک میں شامل کر کے دکھاتا ہے۔ وہ پاکستان سے2019اور چین سے 2020میں تاریخی مارکھاتا ہے اس سے پہلے وہ سری لنکا میں اپنی چلائی ہوئی تامل تحریک کی ناکامی کا تجربہ کرتا ہے لیکن اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے اور علاقے کے امن کو داؤ پر لگائے رہتا ہے۔ پاکستان کو تو اُس نے اِس کے قیام کے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف مختلف محاذ گرم کیے رکھتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں اپنے گھناؤنے کردار کو تو اُس کی ہر سیاسی جماعت ہر الیکشن میں بڑے فخر سے اپنی جیت کے لیے بیان کرتی ہے۔ اُس نے پاکستان میں دہائیوں پر محیط دہشت گردی میں اپنا مکروہ چہرہ ہر موقع پر دکھایا ہے اور ہماری ملکی سالمیت کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ کشمیر کے نام پر پاکستان کے اوپر یہ الزام عاید کرتا رہا ہے کہ پاکستان وہاں مداخلت کر رہا ہے جبکہ خود اُس نے اسّی لاکھ کی مسلم اکثریتی ریاست میں آٹھ لاکھ فوج لا کر بٹھائی ہوئی ہے اور اسے مکمل اختیا رات سونپے ہوئے ہیں کہ وہ جیسے چاہے یہاں کے عوام کے ساتھ سلوک کرے لیکن ریاست کے عوام کو اُن کی مرضی سے جینے کا حق نہ دے کبھی کر فیو لگا کر لوگوں کی زندگی اجیرن بنائے یا لاک ڈاؤن کر کے پورے سال کے لیے انہیں گھروں میں قید کرے۔وہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ یہاں مسلمان آبادی کی اکثر یت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے اور بڑے زور وشور سے اس منصوبے پر کام کر رہا ہے کافی عرصے سے ہندو خاندان لالاکر یہاں بسائے گئے لیکن آبادی کا تناسب تا حال مسلمانوں کے حق میں ہے لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور اس میں یہی تیزی رہی تو خدانخواستہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو زیادہ پرزور انداز میں دنیا کے سامنے لایا جائے اور بتایا جائے کہ یہ صرف مسئلہ نہیں المیہ ہے کہ ایک بہت بڑی آبادی اکثر یت میں ہونے کے باوجود اقلیتوں کے رحم و کرم پر ہے نہ صرف اسے آزادی سے محروم رکھا جارہا ہے بلکہ ان کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کہا جا رہا ہے وہ تحریک آزادی جس میں کئی نسلوں نے اپنی جانیں دی ہیں اور اب بھی چھوٹا بڑا جوان بوڑھا ہر کشمیری آزادی کی خاطر جان لڑ انے کو تیار ہے۔دنیا کو یاد دلانا چاہیے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت پر زور دالے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہاں استصواب رائے کرائے۔ کشمیر یوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کو یقین ہے کہ اگر استصواب رائے ہوا تو فیصلہ اُسکے خلاف اور پاکستان کے حق میں آئے گا اسی لیے وہ ایسا نہیں کر رہا اور اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبا رہا ہے لیکن کب تک آخر کشمیری ایک دن اپنا حق لے کر رہیں گے تو پھر عالمی قوتیں بھارت کو مجبور کریں کہ وہ کشمیریوں کو ان کی مرضی کے عین مطابق آزادی دے اور کشمیر جو قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے وہ پاکستان کے ساتھ آشامل ہو یوں انہیں ان کا فطری حق بھی ملے پاکستان کی تکمیل بھی ہو اور بر صغیر کے امن کو لا حق خطرات بھی ختم ہوں اور خطے میں پائیدار امن بھی قائم ہو لیکن اس سب کچھ کے لیے بھارت کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی ختم کرنا ہوگی۔