تحریکِ طالبان پاکستان کے جرائم کا پردہ چاک
تحریکِ طالبان پاکستان کے جرائم کا پردہ چاک
افتخار حسین
یوں تو تحریکِ طالبان پاکستان کی چیرا دستیاں اور جرائم اب سب پر ہی عیاں ہیں۔ مگر حال ہی میں اسی کے ایک بڑے رہنما نے اس ضمن میں اس کی رہی سہی کثر بھی نکال دی ہے۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق، اعظم طارق نے جو تحریکِ طالبان کے مرکزی سیاسی شوریٰ کا رکن ہے۔ ملّا فضل ا للہ اور اس کے حمایتی کمانڈروں کے مظالم کی ایک طویل فہرست میڈیا میں پیش کردی ہے۔ اس کے بقول آسمان کے نیچے ایسی کوئی برائی نہیں ہوتی جس میں تحریکِ طالبان ملوث نہ ہو۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کے ابھی تک اس گروہ کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد سے اعظم طارق کا کوئی جواب بھی نہیں بن پایا۔ بات بے بات میڈیا میں آنے والا لگتا ہے کے شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپا کر بیٹھا ہوا ہے۔
اعظم طارق نے ملّا فضل اللہ اور اس کے حامی کمانڈروں کے گناہوں کی تفصیلات بیان کرتے وقتملّا فضل اللہ سے علیٰحدگی کا بھی اعلان کیا۔ اس کے مطابق ملّا فضل اللہ نے تحریکِ طالبان کو بے راہ روی کا شکار بنا دیا ہے۔ اور وہ دوسرے ممالک کے خفیہ اداروں کے آلہ کار بن کر رہ گئے ہیں۔ تحریکِ طالبان میں پڑنے والی یہ پھوٹ اس گروہ کے لئیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ تاہم یہاں ہم ان جرائم کا جائزہ لیتےہیں۔جن میں یہ گروہ اعظم طارق کے بقول ملوث ہیں۔
اعظم طارق کے مطابق ملّا فضل اللہ اور اس کے حامی مدارس کی انتظامیہ سے بھتہ لینے جیسے مکروہ کام میں ملوث ہیں۔ مدارس کو ملنے والے چندے سے یہ زبردستی اپنا حصّہ لیتے ہیں۔جو غیر شرعی کامو ں میں صرف کیا جاتا ہے۔یہ نہ صرف نہایت سنگین جرم ہے بلکہ مدارس کی مالی مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ بلا شبہ تحریکِ طالبان کا تنہا یہی گناہ اس کی بے راہ روی اور اسلام سے دوری کو ثابت کرنے کے لئیے کافی ہے۔
اعظم طارق مزید کہتا ہے کہ تحریکِ طالبان اغوأ برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ملوث ہے۔ اوربے گناہ مسلمانوں کو ہی اس کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ اس نے اور اس کے ہم خیال اہلکاروں نےتحریکِ طالبان کو اس جرم سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ملّا فضل اللہ کی مجرمانہ فطرت کے سامنے ان کی کچھ نہیں چلی۔ جہاں تک اغوأ برائے تاوان کی بات ہے تو تحریکِ طالبان نے کبھی اس جرم کو نہیں چھپایا۔بلکہ سرعام اس کا ارتکاب کیا اور ڈنکے کی چوٹ پر لوگوں کو اغوأ کر کے ان کے خاندانوں سے تاوان کا مطالبہ کیا ۔ اس کے ثبوت کے طور پر تحریکِ طالبان کی بہت سی ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ یقیناً یہ بھی ایک بڑا جرم اور گناہ ہے۔ جس کے ارتکاب کی مذمت اسی گروہ کے ایک رہنما کی زبانی ہونا اس کے نظریات کی غیر اسلامی ہونے پر حرفِ آخر ہے۔
اعظم طارق کی فراہم کردہ معلومات میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات تحریکِ طالبان کا منشیات کے کاروبار کی سرپرستی کرنا ہے۔قرآن و سنت نے نشہ آور اشیأ سے ہر طرح کےتعلق اور واسطے کو حرام قرار دیا ہے۔ مگر قرآن و سنت کے نظام کا مطالبہ کرنے والوں کی منافقت کو انہی کے ایک درینہ ساتھی نے عوام کے سامنے عیاں کر دیا ہے اعظم طارق کے مطابق یہ گروہ منشیا ت کے سرمائے سے اپنی سرگرمیا ں چلا رہا ہے۔بھلا حرام ذریعے سے حاصل کرنے والے سرمائے پر پلنے والے یہ دہشت گرد کیوں کر قرآن و سنت کے حامی ہو سکتے ہیں۔ اعظم طارق کے مطابق تحریکِ طالبان سے علیٰحدگی کا ایک بڑا جواز اس کی حد سے بڑھی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیاں ہیں۔ یقیناً تحریکِ طالبان نے عوامی مراکز، بس اڈوں، بازاروں، سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر سرگرمیوں پر حملے کرکے ہمیشہ اپنی درندگی کا ثبوت دیا ہے۔ بے گناہ مرد ،عورتیں اور بچے ان کی اس غیر انسانی راوش کا شکار بنے ۔
عوام پہلے ہی یہ جان چکے ہیں کہ معصوم انسانو ں کو بے دریغ قتل کرنے والے دہشت گرد اسلام کی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ اور وہ حوس اور حرص کے پروردہ ہیں۔ اسلام عورتوں اور بچوں کو محاذ جنگ میں بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا مگر یہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کھلے عام قتل و غارت کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا دہشت گردی کا یہ جنون اب ان کے لئے تنگ ہوتے ہوئے زمین کا بھیس بن رہا ہے جس کے پہلے آ ثار اس میں پڑنے والی پھوٹ سےصاف دکھائی دینے لگےہیں۔