تحریکِ طالبان کی مدارس اور علماء سے دشمنی
تحریکِ طالبان کی مدارس اور علماء سے دشمنی
افتخار حسین
تحریکِ طالبان کے جھوٹے ترجمان اور رہنماؤں کی حکومت مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف بے بنیاد دلیلوں کا ایک نمایاں پہلو مدارس اور علمأ کے نام پر عوام کو مشتعل کرنا ہے۔ اس گروہ کے رسا لوں اور آڈیو ، ویڈیو پیغامات میں شدّومد سے یہ بتایا جاتا ہے کے پاکستان مدرسوں اور علمأ اکرام کا دشمن ہے اور ریاستی اداروں سے انہیں شدید خطرات لاحق ہیں۔ لہذا ان کے تحفظ میں وہ پاکستانی اداروں سے جنگ کر رہے ہیں۔ تحریکِ طالبان کے یہ دعوے سراسر غلط ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ خود مدرسوں اور علمأ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اس ضمن میں اصل حقا ئق قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جو دہشت گردوں سے مدارس کو پہنچنے والے نقصان کو ثابت کرتے ہیں۔
تحریکِ طالبان کے دعوؤں کے برعکس اس وقت وطن عزیز میں پندرہ ہزار سے زیادہ مدارس آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ صرف بہاولپور ڈویژن میں ہزار سے زیادہ مدارس دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہیں کبھی کسی قسم کی مشکلات اور انتظامی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ملک میں مدارِس کے پانچ وفاق قانونی تحفظ کے ساتھ اپنے ماتحت مدرسوں کا انتظام چلا رہے ہیں۔ ان وفاق المدارس کی قیادت نے کبھی بھی تحریکِ طالبان کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کی۔ بلکہ وہ مدارس میں جدّت لانے کے لئے حکومت کی کوششوں کے حامی رہے ہیں۔ یہ حقا ئق دہشت گردوں کے بھی بے بنیاد پروپیگنڈے کو رد کرتے ہیں۔
یہاں ہم سب سے پہلے مدارس سے دہشت گردوں کی دشمنی کے ثبوت کے طور پر خود انہی کے ایک ساتھی کے اعتراف کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
حال ہی میں تحریکِ طالبان کے ایک بڑے رہنما طارق اعظم نے جو تحریکِ طالبان کی مرکزی سیاسی شوریٰ کا رکن تھا۔ ملّا فضل اللہ اور اس کے حامی کمانڈروں کے ہاتھوں سے مدارس اور ان کی انتظامیہ پر ہونے والے مظالم کی ایک طویل فہرست میڈیا میں پیش کی۔
طارق اعظم کےمطابق ملّا فضل اللہ اور اس کے حامی مدارس کی انتظامیہ سے بھتہ لینے جیسے مکروہ کام میں ملوث ہیں۔ مدارس کو ملنے والے چندے سے یہ زبردستی اپنا حصّہ لیتے ہیں جو غیر شرعی کاموں میں صَرف کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف نہایت سنگین جرم ہے بلکہ مدارس کی مالی مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔بلاشبہ تحریکِ طالبان کا تنہا یہی جرم اس کی بے راہ روی اور مدارس سے اس کی مخاصمت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
مدارس برسوں سے برصغیر میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی تدریس کے مراکز ہیں، مگر تحریکِ طالبان نے مدرسوں کو اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا گڑھ بنا کر انہیں بدنام کرکے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ با خبر حلقوں کے مطابق اس گروہ کے دہشت گرد اغوأ برائے تاوان، گاڑیوں کی چوری اور منشیات فروشی جیسے گھنا ؤنےجرم مدارس کی آڑمیں کر رہےہیں۔اِن سرگرمیوں کا یقینی نتیجے کے طور پر مدارس قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ تاہم پھر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مدارس کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھتے ہوئے ان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی۔ اس کے برعکس، دہشتگردا پنی موجودگی سے دنیا بھر میں مدارس کو بدنام اور غیر مقبول کر رہے ہیں۔
بعض علمأ اکرام اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان مدارس کو دہرے طریقے سےنقصان پہنچا رہی ہے جس کا مقصد پاکستان اور اسلام کو علمأ کے سائے سے محروم کرنا ہے۔خود کش حملوں کے ذریعے سے مٹا رہا ہے ایک طرف تو یہ گروہخودکش حملوں کے ذریعے مسجدوں اور خانگاہوں سے منسلک مدارس/ مدرسوں اور علماء کو مٹا رہا ہے اور دوسری طرف انہی مدارس کے طلباء کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر دہشت گردی میں ملوث کر رہا ہے۔ تا کہ مستقبل میں علمأ پیدا نہ ہوسکیں۔ یقیناً یہ علمأ اور مدارس کے خلاف بہت سنگین سازش ہے جس کا ادراک ایک عام شخص بھی زمینی حقائق سے باخوبی کرسکتاہے۔
ہمیں گزشتہ ایک دہائی سےایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جنہیں دشمن ممالک کے خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس دہشت گردی کاسب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اسلام کے نام پر گمراہ کئے جا رہے ہیں۔ لہذا تحریکِ طالبان اپنی قتل و غارت گری کو من گھڑت تاویلوں سے جائز قرار دیتی دکھائی دیتی ہے۔ اور یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کچھ سادہ لوگوں کو ان کی مدد پر آمادہ کر دیتی ہے۔
اس مختصر مضمون میں بیان کردہ حقیقت تحریک طالبان کی مدارس اور علماء سے دشمنی کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لٰہذا ، مدارس اور علماء کے نام پر تحریک طالبان کےجھوٹ کا ادراک کر کے ہمیں مدرسوں اور علماء کے تحفظ کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مکمل ساتھ دینا چاہے۔