تحریکِ طالبان کے خلاف عوام کا اُمڈتا ہو ا سیلاب
حال ہی میں ملک کے مختلف علاقوں میں بہت سی طالبان مخالف ریلیز، جلسہ و جلوس، سیمینار اور کانفرنس کا انقعاد ہوا ہے۔ یہ سبھی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں طالبان کی سوچ کو عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے اسلام کا نام استعمال کر کے کچھ سادہ لوح لوگوں کو اپنے ساتھ ضرور ملا لیا تھا مگر ان ہی کی حد سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کاروائیوں نے انھیں اپنے ہی حامیوں کے لیے نہ قابلِ قبول بنا دیا ہے۔ لوگ جان چکے ہیں کہ اسلام اور شریعت کی آڑ میں تحریکِ طالبان یا تو محض خود غرضانہ ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں یا پھر کسی اسلام اور پاکستان دشمن قوت کے گھناؤنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔
28 فروری کو سُنی اتحاد کونسل نے طالبان مخالف دن منایا۔ اس ضمن میں سبھی فرقوں، سماجی گروہوں اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان کا ساتھ دیا۔ دیکھا جائے تو طالبان کی اپنی ہی سوچ اور عمل اس صورتِ حال کا باعث بنا۔ انہوں نے امام بارگاہوں، مسجدوں، مذہبی جلسوں اور جلوسوں کو بلا دریغ خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔ ہر مسلک اور فرقے سے وابستہ لوگوں نے اس دہشت گردی سے جانی اور مالی نقصان اُٹھایا۔ یہی سبب ہے کہ تحریکِ طالبان کی مخالفت میں عوامی سطح پر اس قدر شدت آ گئی ہے۔
دہشت گردی کی مخالفت میں اُمڈتے ہوئے اس عوامی طوفان کا ایک اور نمایاں پہلو یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم مکمل طور پر عیاں ہو چکے ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں سے امن مذاکرات میں پیش رفت ہوئی تو ساری قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ شاید دہشت گردی کے بے قابو ہوتے ہوئے جن کو اب قابو میں کیا جا سکے گا۔ لیکن افسوس ان دہشت گردوں کی دوہری پالیسی نے لوگوں کو شدید مایوس کیا۔ امن مذاکرات کے ساتھ دہشت گردی کی کاروائیوں کسی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اگر امن مذاکرات کی کوئی بات ہوتی ہے تو ان مذاکرات کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کی آئے روز کی شہادت نے امن مذاکرات کے لیے ان دہشت گردوں کی سنجیدگی پر کئی سوالات اُٹھائے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب لوگ امن مذاکرات کی نسبت فوجی کاروائی کی حمایت میں سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
تیزی سے بدلتی ہوئی اس صورتِ حال کا ادارک تحریکِ طالبان کی قیادت کو بھی حاصل ہو رہا ہے۔ شاید ایک آخری کوشش کے طور پر انہوں نے بھی اپنی میڈیا کمپین تیز کر دی ہے۔ لہذا ان کے ترجمان اب چھوٹے چھوٹے معلاملات پر لمبی لمبی وضاحتیں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی سبب سے وہ اس بات کی بھی شکایت کرنے لگے ہیں کہ میڈیا ان کی سخت مخالفت پر اُتر آیا ہے۔ اگر وہ حقائق کی سہی آگاہی حاصل کر سکے تو انھیں یہ بات شاید سمجھ لگ سکے کہ عوام ان کی عمل کی وجہ سے ان کی اس قدر شدید مخالفت پر اُتر آئے ہیں۔ محض وضاحتوں سے انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا۔ جب تک وہ عملی اقدامات لے کر ملک میں دہشت گرد حملے نہیں روک دیتے۔
تحریکِ طالبان نے عوامی مراکز، بس اڈوں، بازاروں، سکولوں ، ہسپتالوں اور دیگر سرگرمیوں پہ حملے کر کے ہمیشہ اپنی درندگی کا ثبوت دیا ہے۔ بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے ان کی اس غیر انسانی روش کے شکار بنے ۔ عوام یہ جان چکے ہیں کہ معصوم انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والے دہشت گرد اسلام کی تعلیم سے بے بہرہ ہیں اور وہ حوس اور حرص کے پروردہ ہیں۔ اسلام عورتوں اور بچوں کو محاذ جنگ پہ بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر یہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کھلے عام قتل و غارت گری کرتے رہے ہیں۔ دہشت گردی کا یہی جنون اب ان کے لیے تنگ ہوتی ہو ئی زمین کا باعث بنا ہوا ہے۔
تحریکِ طالبان کو ایک آخری موقع دیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی پر کاربند ہو جائے اور مذاکرات کی پیش کش کو سنجیدگی سے لے۔ مگر ملک میں مذاکرات کے عمل کے باوجود حملوں میں کمی نہیں ہوئی۔ یہ طرزِ عمل کسی بھی طور سہی نہیں اور دہشت گرد حکومت اور افواج کی صلح پسندی کو نظر انداز کر کے خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ بہتر ہے کو وہ اُمڈتے ہوئے اس عوامی طوفان کا سہی طور پر ادارک کر کے بات چیت کے ذرائع سےاپنے لیے کوئی بچاؤ کا راستہ اختیار کر لیں۔ ورنہ وہ نہ تو پاکستان کے 20 کروڑ مسلمانوں سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں ان کے غضب و غصے سے کہیں پناہ ملنے والی ہے۔