تحریکِ طالبان کے خود سر رہنما اور امن مذاکرات کی ناکامی

Fazlullah-injured-afghan-taliban-attack

تحریکِ طالبان کے خود سر رہنما اور امن مذاکرات کی ناکامی

تحریکِ طالبان کی قیادت کی خود سری اور تکبر کی وجہ سے امن مذاکرات کی ناکامی اب نوشتہ ٔ دیوار نظر آنے لگی ہے۔ قتل و غارت گری کے جنون اور بارود اور خود کش حملوں کی محبت نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حکومت نے مکمل خلوص کے ساتھ انھیں امن کی راہ پر لانے کی کوششیں کیں اور ہر ممکن ذریعے سے ان کی تشفی کرائی۔ یہاں تک کہ ان کے کچھ بظاہر نا قابلِ قبول شرائط   اور مطالبات کے جواب میں بھی حکومت نے انھیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ مگر تحریکِ طالبان کے رہنما شاید حکومت کے اسی صلح جوئی کے ردِّ عمل میں مزید خود فریبی کا شکار ہوگئے اور انھیں یہ لگتا ہے کے بندوق اور خود کش حملوں کے زور پر وہ خود کو پاکستان کی حکومت، افواج اور عوام پر مسلط کر سکتے ہیں۔ ان کی یہ روش مذاکرات کی ناکامی اور فوجی کاروائی کے عمل پذیر ہونے کا باعث بنتی نظر آ رہی ہے۔

مذاکرات کے موجودہ عمل کے آغاز میں ہی تحریکِ طالبان نے فروری میں 22 مغوی ایف سی اہلکاروں کو بے دردی سے ذبح کر کے امن کے عمل کو شدید دھچکا پہنچایا تھا۔ یہ اہلکار گزشتہ تین سال سے ان کی قید میں تھے۔ لہٰذا ان کو اس وقت شہید کرنا تحریکِ طالبان کی بد نیتی کا مظہر تھا۔ اس طرح کا وحشیانہ سلوک تو کبھی ہندوستان کی افواج نے بھی کسی جنگ میں پاکستانی قیدیوں کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ نہ ہی ایسے ظالمانہ عمل کی مثال افغانستان میں 30 برس سے جاری لڑائی میں کسی فریق نے روسی یا امریکی فوجی کو یوں ذبح کر کےقائم کی ۔بھلا ، اس طرح کی غیر اسلامی اور غیر انسانی روش پر چلنے والوں سے کس بنیاد پر کسی بھلائی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ مگر حکومت نے اس ظالمانہ عمل پر بھی صبرو تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے مذاکرات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

تحریکِ طالبان کی اعلان کردہ جنگ بندی بھی بظاہر دھوکہ دہی کا ایک عمل تھا۔ جنگ بندی بھی رہی اور اسی کی آڑ میں مختلف ناموں کا استعمال کر کے ملک میں حملے بھی کرتے رہے۔ جنگ بندی بھی محض ایک ماہ کے لئے کی گئی اور اس میں کبھی تین اور کبھی چار دن کی توسیع کا اعلان کر کے اس کو ایک مذاق بنائے رکھا۔ اسی اثنأ میں یہ گروہ اپنے ہی کمانڈروں کی آپسی لڑائی کا بھی شکار ہو گیا۔ لہٰذا، صورتِ حال مزید غیرواضح ہو گئی۔ حکومت کے لئے اس بات کا ادراک کرنا کہ کس کمانڈر سے بات کی جائے اور کون کس کا کس حد تک نمائندہ ہے بہت ہی مشکل ہو گیا۔

انہی اسباب کی وجہ سے ملک میں اور بیرون ملک رائے عامہ تحریکِ طالبان سے مذاکرات کرنے کے بجائے پہلے سے ہی فوجی کاروائی کے حق میں تھی۔ مگر حکومت اور مسلح افواج نے عوامی مفاد میں امن مذاکرات کو جنگ پر ترجیح دی تاکہ قبائلی علاقوں میں عوام کی جان و مال اور املاک کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ حکومت نے تحریکِ طالبان کو امن کی راہ پر رکھنے کے لئے ڈرون حملوں کو رکوایا۔ لہٰذا چار ماہ کے لئے یہ سلسلہ رکا رہا۔ افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی شدت پسندوں کے خلاف   اپنی کاروائیوں میں کمی لائی۔ تحریکِ طالبان کے کچھ قیدیوں کو بھی اس کے مطالبے پر رہا کیا گیا تاکہ اس کی قیادت کو تحریب کارانہ سوچ کو ترک کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ مگر حکومت کے ہر مثبت عمل کا ردِّ عمل منفی آیا اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔

تحریکِ طالبان کی قیادت کو اپنے سخت گیر روئیے کو ترک کرنا ہو گا ۔ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ لہٰذا ملک میں حملوں کے سلسلے کو تھمنا ہو گا بصورت دیگر امن مذاکرات میں موجودہ تعطل ان کی ناکامی پر منتج ہو گا۔ اس کی ذمّہ دار ان کی قیادت ہی ہو گی۔ وہ جس قدر جلد اس امر کا ادراک کر لیں یہ اس قدر ان کے حق میں بہتر ہو گا ۔

ملک میں حال ہی میں بہت سی طالبان مخالف ریلیاں ، جلس و جلوس، سیمینار اور کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے۔ یہ سبھی سرگرمیا ں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں طالبان کی سوچ کو عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے اسلام کا نام استعمال کر کے کچھ سادہ لوح انسانو ں کو اپنے ساتھ ضرور ملا لیا تھا مگر انہی کی حد سے بڑھی ہوئی دہشت گردانہ مہم نے انہیں اپنوں ہی ہمدردوں کے لئے نا قابلِ قبول بنا دیا ہے ۔ لوگ جان چکے ہیں کہ اسلام اور شریعت کی آڑ میں تحریکِ طالبان کے رہنما اور ارکان یا تو محض خو د غرضانہ ایجنڈے پر عمل پیر اہیں یا پھر کسی اسلام اور پاکستان دشمن قوت کے گھناؤنے منصوبے کو پایٔہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔

ان حالات و واقعات کی روشنی تحریکِ طالبان کی ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ لہٰذا اس کے رہنما اپنے انجام کا ادراک کرکے امن کی راہ اختیار کرلیں ورنہ 22مئی کو شمالی وزیرستان میں ہونے والی فوجی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی کاروائی مکمل آپریشن کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top