تم کو رقم کریں گے یہ بچے کتاب میں
نغمہ حبیب
پشاور کے ہسپتالوں میں مردہ خانوں کے آگے کسی چہرے پر کوئی امید کوئی آس نہیں تھی آج پورا شہر سوگوار ہے شہر کیا پورا ملک رورہا ہے ہر آنکھ اشکبار ہے آج دہشتگردوں نے سفاکیت اور درندگی کی انتہا کردی ۔دہشتگردی کے واقعات سالہاسال سے ہورہے ہیں اور ہر واقعہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے لیکن آج تو سارا پاکستان رو پڑا چیخ اٹھا یہ حملہ یوں تو آرمی پبلک سکول پر ہوا لیکن یہ پاکستان کے ہر بچے پرحملہ ہے اس کے مستقبل پر حملہ ہے۔ معلوم نہیں وہ انسان کیسے ہوتے ہیں جو انسان کو مارکر فتح کا جشن مناتے ہیں اور وہ کیسے لوگ تھے جن کی بندوقیں بچوں کی طرف اٹھیں اور گولیاں اُگل گئیں انہیں اپنی ماں کا بھی خیال نہیں آیا کہ اس نے ان کو ان کے بچپن میں کیسے تکلیف سے بچانے کی کوشش کی ہوگی ایسی ہی مائیں ان بچوں کی بھی ہیں لیکن ایسا تو انسان سوچتے ہیں اور یہ دہشت گرد جو خود کو مسلمان کہتے ہیں یہ تو انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں۔ اگر وہ انسان ہوتے تو وہ یوں پھول جیسے بچوں کو نہ مارتے بلکہ نہ کچلتے۔ آٹھویں جماعت کو وہ چھوٹا سا بچہ کامران ان کا کیا بگاڑ سکتا تھا جو سینے پر دو گولیاں کھاکر کہہ رہا تھا اب میں ٹھیک ہوں اب درد کم ہے۔ دسویں جماعت کے عمر خان سے جب ہسپتال میں بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے سکول کا پراکٹر تھا اور گیٹ پر اس کی ڈیوٹی تھی ان دہشتگردوں نے اندر داخل ہوتے ہی اس پر گولی چلائی اور پھر اس کے دو دوستوں کو شہید کیا اور جب یہ ان کی مدد کرنے کے لیے ان کی طرف بڑھا تو اس پر دوسری گولی چلائی گئی اور اس کے بعد جب وہ اپنے دوستوں کی مدد کرنے کے قابل بھی نہ رہا تو تب اس نے اپنی جان بچائی اب کس نے مسلمان ہونے کا ثبوت دیا اس بچے نے یا طالبان نے ۔مسلمان وہ بچہ تھا جو چار پانچ چھوٹے بچوں کو لے کر بھاگ رہا تھا یا خلافت اور امارت کے دعویدار یہ درندے۔ میری جلال اور علیم سے بھی بات ہوئی بے شک کہ ان کے حوصلے بلند تھے ان میں سے کسی نے بھی آئندہ سکول نہ جانے کی بات نہ کی لیکن جو یہ کہتے ہیں کہ قربانیاں زندہ قومیں دیتی ہیں اور آخری سانس تک لڑینگے وغیرہ وغیرہ تو بلاشبہ کہ ایسا ہی ہے لیکن کیا پاکستان میں قربانیوں کا یہ سلسلہ تھمے گا بھی تاکہ ہم ان قربانیوں کا پھل کھا سکیں یا کیا ہمارے حکمران ہمیشہ قوم سے قربانیاں مانگتے رہیں گے اور صبر کے میٹھے پھل کے لیے ہماری نسلوں کی نسلیں قربان ہوتی رہیں گی اور نامراد گزرتی رہیں گے۔
دہشت گردی ہمارے ملک کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہے لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں کا خمیارہ ہے جو قوم بھگت رہی ہے ہمارے سیاستدان آپس میں دست وگریباں ہیں انہیں حکومت چاہیے اور جن کے پاس حکومت ہے وہ اس کے دائمی تسلسل کے خواہاں ہیں۔ قوم کا خیال انہیں تب آتا ہے ملک کی فکر انہیں تب ہوتی ہے جب ان کے چہرے لہو لہان ہو جاتے ہیں۔ آج پشاور کے آرمی پبلک سکول کے باغ سے جب پھول نوچے گئے ،پاکستان کے مستقبل کے کئی روشن ستارے تاریک کر دیئے گئے تو ایک دفعہ پھر سیاسی قیادت مل بیٹھی۔ سیاست سے اختلاف کو خارج نہیں کیا جا سکتا لیکن کم از کم قومی معاملات پر تو اتفاق رائے ہو۔ قوم چیختی رہی کہ ہمارے قاتلوں یعنی دہشت گردوں کو سزائیں دی جائیں لیکن کہیں ہماری عدالتیں یہ بیان اور فیصلے سناتی رہیں کہ ثبوت ناکافی ہیں اور یوں درندوں کو بری کیا جاتا رہا اور کہیں اگر کسی عدالت نے غلطی سے کھلے ثبوت تسلیم کر لیے اور مجرموں کو سزا سنائی تو ہماری حکومتیں مصلحتوں کا شکار ہو کر ان سزاؤں پرعمل در آمد سے گریزکرتی رہیں۔یہاں تک کہ دہشت گردوں کی پھانسیوں کو بھی روکا گیا بلکہ بہت سوں کوتو رہا کر دیا گیا اور توجیہہ صرف وہی ایک کہ ثبوت نا کا فی ہیں۔ کیا پشاور آرمی پبلک سکول کے ان بچوں نے کوئی جرم کیا تھا اور کیا طا لبان نے کسی لمبے مقدمے کے بعد انہیں مجرم پاکر انہیں مارااگر ایسا نہیں ہے تو ہم کیوں لمبے مقدموں اور ثبوتوں اور عدالتی فیصلوں کے چکر میں رہتے ہیں جبکہ انہیں جائے وقوعہ سے گرفتار کیا جاتا ہے تو اور کون سے ثبوت ہیں جو نہیں مل رہے۔ ایسے حادثوں کے بعد تو ہم سب یک زبان ہو جاتے ہیں ایک قوم بن جاتے ہیں اور اس کے چند دن بعد ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اب بھی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے لیکن کیا صرف سوگ منا لینے سے ہم آئندہ اس قسم کے حا دثات سے محفوظ ہو جائیں گے قوم کا فیصلہ اس سوچ کے خلاف ہے اور سوال یہ ہے کہ ہم آخر ان دہشت گردوں کو فوری سزائیں کیوں نہیں دیتے اور کیوں انہیں مزید اور مزید مواقع فراہم کر دیتے ہیں۔ حکومت نے جس سوگ کا اعلان کیا ہے وہ اُس ماں کے دکھ کا علاج نہیں جس کا بچہ بیدردی سے شہید کر دیا گیااگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے جیسا کہ آج وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کی سزاوں پر سے پابندی ختم کر نے کا اعلان ہے تو کیوں نہ ان تین دنوں میں ہی ان دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکا یا جائے حق تو یہ ہے کہ ہر اُس بیٹے کو جس کا باپ، ہر اُس ماں کوجس کا بیٹا اور ہر اُس بہن کو جس کا بھائی اس دہشت گردی کی نظر ہوا ان کو حق حاصل ہے کہ ان کو اسی طرح چوکوں چوراہوں سڑکوں اور مارکیٹوں میں سرعام سزا دیں جیسا کہ اُنہوں نے معصوم لوگوں کوہر جگہ مارا لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو لہٰذا حکومت اپنا فرض ادا کرے اور خون کا بدلہ خون لے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ یہ پتہ چلا لیا گیا ہے کہ اے پی ایس پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کون تھے اور کہاں سے ہدایات لے رہے تھے اگر ایسا ہے تو اگر ابھی ممکن نہ ہو تو جلد از جلد قوم کو حقائق بتائے جائیں اور ان مجرموں تک رسائی حاصل کر کے انہیں اعلانیہ اور جلد از جلد سرعام سزائے موت دی جائے اگرہم نے ایک دفعہ سخت سزاؤں پر عمل درآمد شروع کر دیا تو د ہشت گردی سے نجات پانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔قوم اپنے معصوم بچوں کے خون کے بدلے کا انتظار کرے گی اور ان کو جلد از جلد سزا شاید ان کے زخموں پر مرہم رکھ دے کیونکہ اب مزید صبر بزدلی کے زمرے میں آئے گا اور بزدل قومیں فنا ہو جاتی ہیں تاریخ انہیں اپنے صفحات سے مٹادیتی ہیں ۔بس اب مزید کسی حادثے کا انتظار مت کیجیے آخری فرد تک مقابلہ ضرور اچھا ہے لیکن جب آخری فرد ،آخری سانس بھی ختم ہو جائے تو جیت کس کام کی۔اگلی نسل تک بات مت جانے دیں ان کی حفاظت ہمارا فرض بھی ہے اور ضرورت بھی ورنہ ہمیں کتاب میں کون رقم کرے گا۔