Posted date: January 02, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
مقبوضہ جموں وکشمیر میں دسمبر2014 میں نئی دہلی سرکار کی مرضی ومنشاء کے عین مطابق ہرپانچ سال کے بعد ایک بار پھر ’عام انتخابات کا ڈرامہ‘ اسٹیج کیا گیا ماضی کے طرح اِس بار بھی ’الیکشن ڈرامہ‘ کے میدان میں عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے ساتھ پی ڈی پی اتری، مرکز یعنی نئی دہلی سرکار کی سیاسی جماعتیں مثلاً کانگریس کے ساتھ بی جے پی نے ’مشن 44‘ کے خفیہ عزم کے ساتھ کشمیری عوام کو کھلے عام دھوکہ و فریب دینے کی اپنی سی بھر پور کوششیں کرڈالیں، مگر ناکامی اُس کا نصیب ٹھہرا!اِس بار بھی سرعام فراڈ الیکشن میں کشمیری عوام نے بھارت کی غاصبانہ جبرو استبداد سے اپنی تاریخی بیزاری کی انسانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ ظاہر کردیا کہ جہاں وہ عمر عبداللہ جیسوں کو کٹھ پتلی کے طور پر بھی برسر اقتدار آنا دیکھنا نہیں چاہتے وہاں بی جے پی کے’مشن 44‘ کا اُنہوں نے پُتلا ہی جلا ڈالا، یاد رہے مقبوضہ کشمیر کے عوام نے جہاں اپنی واحد نمائندہ سیاسی جماعت حریّت کانفرنس کے بائیکاٹ کی آواز پر لبیک کہا وہاں ہمیشہ کی طرح یہ تاریخی حقیقت بدستور قائم رہی جس کے بارے میں بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ عمر عبداللہ کی خاندانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں رچائے جانے والے ہر عام انتخابات میں حصہ ڈال کر دہلی سرکار کے اُس بے تکے‘ بودے‘بے جان اور کمزور موقف میں اپنے طور پر جان ڈالنے کی اپنی جو مذموم کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں‘ وہ تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ بُرے تذکروں اور تلخ کڑے حوالوں سے یاد کی جائیں گی تاریخی سچائی ہے اور اِسے ہر طور پر ماننا پڑےگا کہ بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں عوام نے اپنی قومی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی واضح برتری کی اکثریت کو ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر منوا یا ہے ہمیشہ وہ حریّت کانفرنس کو اپنی نمائندہ سیاسی جماعت سمجھتے ہیں حریّت کانفرنس نے بھی کبھی بھارتی انتظام میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ کبھی وہ دہلی سرکار کے الیکشن کے کسی دام فریب کا خود شکار ہو ئے حریّت کانفرنس نے کشمیری عوام کی نمایاں اکثریت کو آزادی اور ہرقیمت پر آزادی کی بامعنی منطقوں اور دلائل کی روشنی میں اِن ’فراڈ‘ الیکشن سے دور رکھا ہے، نئی دہلی میں چاہے کانگریس اقتدار میں ہو کوئی اور جماعت ہو یا بی جے پی کی حکومت ہو حریّت کانفرنس کے اہم مقبول قائدین کا ایک ہی ٹھوس موقف و اضح رہا کہ کشمیر میں جب بھی عوام اپنی مرضی و رائے کا اظہار کریں گے وہ سراسر حق ِ خود ارادیت کی حتمی رائے ہوگی کشمیریوں کی اپنی جمہوریت ہوگی،اُن کا اپنا اختیار کردہ طرز ِ حکومت ہوگا کسی قیمت پر نئی دہلی کی تابع ِ فرمان حکومت کو کشمیری تسلیم نہیں کریں گے دور کیوں جا ئیے حال ہی میں 2014 دسمبر میں ہونے والے اِس کھلے فراڈ الیکشن میں نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ جیسوں کو بھی اپنا یہ انتخابی سلوگن اپنانا پڑا اور یہ موقف اختیار کرنا پڑا ’کہ مقبوضہ وادی کے انتخابات’رائے شماری‘ کا متبادل نہیں ہیں‘ عمر عبداللہ کا یہ موقف معمولی نہیں ’غیر معمولی‘ اور ہر اعتبار سے ایک تاریخی موقف ہے مگر کیا کریں اختلاف تو وہ کرتے ہیں نا،اقتدار کی حرص وہوس نے عمر عبداللہ اپنا یہ سچا موقف کھلے عام اقتدار ملنے کے بعد نہیں اپناتے اگر مسٹر عمر عبداللہ اپنا سیاسی قبلہ کشمیری عوام کی مرضی ومنشاء کے مطابق اپنائیں تو پھر نئی دہلی اسٹبلیشمنٹ کی ناراضگی اُنہیں مول لینی پڑے گی وہ سمجھتے ہیں کہ نئی دہلی سرکار کی ناراضگی اُنہیں مہنگی نہ پڑ جائے چلیئے وہ خوش رہیں جہاں تک اُن کا یہ کہنا کہ کشمیر میں جیسے تیسے انتخابات ہونے سے نچلی سطح پر عوام کے بنیادی سہولیات کی فراہم ممکن ہوجاتی ہیں اُن کے اِس کم درجے کے استدلال سے ہمیں کیا ہر آزادی پسند انسان کو اختلاف ہوگا کیونکہ بنیادی سہولیات کا تعلق انسانی ضرویات سے یقینا ہو سکتا ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق کا براہ راست تعلق آزاد اور خود مختار سیاسی وسماجی معاشرے کی تعریف میں آتا ہے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انتخابات کرادینا یہ کوئی بات نہیں ہے کہ مقبوضہ وادی کے لاکھوں مسلمان کشمیری بھارتی فوج کے ظلم وستم سہتے رہیں کشمیری نوجوان اپنی راتیں اپنے گھروں سے باہر گزاریں بھارتی فوجی جب چاہئیں کشمیریوں کے گھروں کی دیواریں پھاند کر اُن کے گھروں میں جا گھسیں مسلمان کشمیری خواتین کی بے حرمتی کے مرتکب ہوں بلا جواز‘ بلا اشتعال گھروں کے جوانوں کو باہر نکال لیں، بزرگوں کی دھڑلے سے بے عزتی کریں، کوئی ایک سڑک بنالینا یا کوئی ایک نالی بنالینا مقبوضہ وادی کی میونسپل ضروریات پوری کردینا انسانوں کی اتنی ہی ضروریات یا سہولیات نہیں ہوتیں اِتنی سہولیات تو دنیا بھر کے ملکوں کی جیلوں میں قیدیوں برابر فراہم کی جاتی ہیں عمر عبداللہ صاحب اصل مسئلہ کشمیریوں کے حق ِ خود ارادیت کی فراہمی کو یقینی بنانے کا ہے‘ جس وعدہ نئی دہلی سرکار نے آنجہانی جواہر لعل نہرو نے بحیثیت وزیر اعظم بھارت 9 / جولائی1951 کو
آل انڈیا کانگریس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے پوری دنیا سے کیا تھا یہ نریندر مودی ’شودی‘ کل کی پیدا وار ہیں، آر ایس ایس‘ بجرنگ دل‘ وشوا ہندو پریشد ٹائپ کی جنونی تنظیموں کی بھارت میں زیادہ بڑی زندگی نہیں ہے بھارت دنیا کا ایسا مشکل ملک بنتا جارہا ہے کسی عالمی طاقت نے اُس کے اِن بہیمانہ سامراجی عزائم سے اُسے نہ روکا تو یہ حقیقت پتھر پر لکھی انمٹ تحریر سمجھ لیں کشمیر کے مسئلے کو پُرامن طور پر کشمیریوں کی خواہشوں اور اُن کی دلی تمناؤں کے عین مطابق اِنہوں نے حل کرنے کی طرف 2015 میں اگر کوئی ٹھوس اور بامقصد قدم نہیں اُٹھائے تو خود بھارت دیش کی اپنی ’یکتائی‘ خطرے میں پڑسکتی ہے جناب ِ والہ! بی جے پی نے کیا کیا جتن نہیں کیئے ہونگے نریندر مودی نے ’مشن 44‘ کی انتہائی مہنگی ترین جارحانہ میڈیا مہم چلائی مودی نے اِسے ہر مہنگی قیمت پر کامیاب بنانے کے لئے9 بار کشمیر کے دورے کیئے کس کس کو نہیں خرید نا چاہ ہوگا اِس نے؟ سیاسی طور کشمیر کو ’فتح‘ کرنے کا مودی نے بڑی تام جھام کے ساتھ اعلان کیا تھا اور اُسے کیسے منہ کی کھانی پڑی، ہاں‘ہم کسی بھی ملک میں جاری حقیقی جمہوریت کے قطعی مخالف نہیں‘جمہوریت کا پہلا سبق یہ ہی تو ہے”ایسی حقیقی جمہوریت رائج ہو جس میں ا فراد کے بنیادی حقوق پر کوئی ڈاکہ نہ ڈال سکے جمہوری ملکوں میں عوام سیاسی‘ سماجی‘ ثقافتی اور ملی اعتبار سے مکمل آزاد ہوتے ہیں یہ نئی دہلی والے کتنے سخت اور کٹھور دل واقع ہوئے ہیں، جنہیں اب تک یہ احساس نہیں ہوا کہ بھارتی فوج کے مسلسل جبرو جور کی بہیمانہ ستم کاریوں نے کشمیری عوام پر زندگی کا ایک ایک پل دکھوں کے المناک صدموں کی تصویر بناڈالا ہے نجانے کیوں نئی دہلی سرکار سمجھتی ہے ہر پانچ برس کے بعد مقبوضہ وادی میں تعینات سیکورٹی فورسنز کی نگرانی میں کشمیرمیں دھونس‘ دھاندلی اور طاقت کے زور پر الیکشن کا ڈرامہ رچا کر دنیا کو مزید دھوکے پر دھوکہ دیا جائے، کوئی سمجھے نہ سمجھے مگر سیّد علی گیلانی کی یادداشتیں جنہوں نے پڑھی وہ جانتے ہیں کہ کاش! اب بھی وقت ہے مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام میں اپنا اثرورسوخ رکھنے والی دیگر سیاسی جماعتیں اب بھارتی نوازی کا راستہ تج کر دیں اور سمجھ جائیں بقول مفکر پاکستان علامہ اقبال کے‘ کہ
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب۔تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پَری