جماعت الاحرارکا قیام شکست خوردہ تحریکِ طالبان ٹوٹ پھوٹ کا شکار
جماعت الاحرارکا قیام شکست خوردہ تحریکِ طالبان ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ایس اکبر
مسلح افواج کی مسلسل کامیابیوں نے دہشت گردوں کو شکست کے قریب پہنچا دیا ہے۔ضربِ عضب آپریشن تحریکِ طالبان کے طابوت میں آخری کیل ثابت ہو رہا ہے۔دہشت گرد تتر بتر ہو گئے ہیں اور تحریکِ طالبان ایک منظم دہشت گرد تنظیم نہیں رہی۔ایک نئے گروہ کا قیام اس تنظیم میں پڑنے والی سب سے بڑی پھوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔حال ہی میں تحریکِ طالبان کی جانب سے ایک ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں جماعت الاحرار کے نام سے نئے گروہ کا اعلان کیا گیا۔مولانا قاسم خراسانی کو اس گروہ کا نیا امیر نامزد کیا گیا ہےجو کہ پہلے تحریکِ طالبان کے ایک نجی گروہ احرار الہند کا سرغنہ تھا۔ اورکزئی ایجنسی ، باجوڑ ایجنسی ، مہمند ایجنسی ، اور خیبر ایجنسی کےجملہ اراکین جنھوں نے اسی گروہ میں شمولیت اختیار کی ہے کئی بار آپسی لڑائی کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ نامزد امیر کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان کی قیادت ہمیشہ سے شخصی اغراض و مقاصد کا شکار رہی ہے اِسی لیے اتحا دو اتفاق وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تنظیم کے اند ر انتشار کی وجہ سے محسود قبیلے اور کرم ایجنسی کے اراکین پہلے ہی تنظیم سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔ ٹی ٹی پی کے کمانڈر خالد خراسانی کے مطابق اِس نئے گروہ کا مقصد اسے مزید تقسیم، مایوسی اور انتشار سے بچانا ہے خالد خراسانی نےمزید یہ کہا ہے کہ تحریک طالبان اِس لئے نہیں بنائی گئی تھی کہ اسے چند ہاتھوںمیں دے دیا جائے تاکہ ہر کوئی اپنی کرسی مضبوط کرے اور لوٹ مار کرے ۔ مزید یہ کہ نا اہل قیادت کی وجہ سے بھی تحریکِ طالبان مختلف مسائل میں گھری ہوئی ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق دہشت گرد کمانڈروں کو اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ ان کمانڈروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جنگی کاروائیوں میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لے رہے جبکہ لوٹ کھسوٹ اور اغواء کی رقم پر عیش کرنے کے علاوہ دیگر غیر اسلامی سر گرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ طالبان کمانڈروں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی اپنے ساتھیوں کو کسی قسم کی جنگی تربیت دیتے ہیں ۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی ویڈیو میں تحریکِ طالبان کےمختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سربراہوں نے واضح الفاظ میں اِس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ تنظیم شدید اندرونی انتشار کے باعث مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے جو صرف اور صرف اِس کے امیر فضل اللہ کی نا اہلی کی وجہ سے ہے۔ اِسی زبوں حالی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سوات، چارسدہ، مہمند ، باجوڑ اورکزئی، خیبر اور کرم ایجنسی کے طالبان لیڈرز نے باہم مشورے سے ایک نئے گروہ کا انعقاد کیا ہے۔ جس کا مقصد تحریکِ طالبان کو مزید شکست سے بچانا اور دوبارہ سے تمام کارکنان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے۔
دہشت گردوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کی سب سے بڑ ی وجہ سیکیورٹی فورسز کی ان کے خلا ف کامیاب کاروائی ہے۔ جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔قبائلی علاقہ جات میں طالبان کی ساکھ کمزور ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ تحریکِ طالبان کی قیادت اپنا اثرورسوخ کھو چکی ہے اوراس تنظیم کے کارندوں کے درمیان اختلافات بھی تول پکڑ رہے ہیں یہ کارندے اکثرو بیشتر اپنے کمانڈرز سے نالاں رہتے ہیں ۔دہشت گردوں کے مابین اقتدار کی جنگ، کارندوں میں جھگڑوں اور کئی قسم کے غیر سنجیدہ رجحانات کا پایا جانا یقیناً سیکیورٹی فورسز کی کامیابی کی واضح دلیل ہے۔
طالبان دہشت گرد اپنی گرتی ہو ئی ساکھ اور عوامی حمایت کھو جانے کے سبب نہایت زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کامیاب عسکری کاروائی اور قبائلی عوام کی بڑھتی ہوئی نفرت کی وجہ سے دہشت گردوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔آج تک قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کا اثر و رسوخ بھی اسی وجہ سے قائم تھا کیونکہ وہاں کی معصوم اور امن پسندعوام کو ان فسادیوں نے اسلام کے نام پر جھوٹے پراپیگنڈے سے اپنے زیرِ اثر کر رکھا تھا۔ اور انہی کی حمایت کے بل بوتے پر وہ جہاد کی آڑ میں اسلامی ریاست پاکستان کے خلاف محاذ کھولے ہوئے تھے۔ مگر جتنا بھی ڈھونگ رچالیا جائے حقیقت کبھی چھپ نہیں سکتی ۔ دہشت گردوں کی اقتدار کے لئے جنگ اور با ہمی چپقلش کی وجہ سے ان کی اصلیت سے پردہ اٹھنا شروع ہو گیا ہے ۔ قبائلی عوام کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کا اسلام اور جہاد سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، بلکہ یہ ملک اور اسلام دشمنوں کے آلہ کار ہیں۔
اہم دہشت گرد کمانڈرز کی تحریکِ طالبان سے علیحدگی اور نئے گروہ میں شمولیت ان دہشت گردوں کے درمیان آپسی اختلافات اور اس تنظیم کی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آج نہ صرف اس گروہ کے کارندے تنظیم چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں بلکہ نئے لوگ بھی اس غیر اسلامی و غیر اخلاقی اقدار کی حامل تحریک میں شمولیت سے انکاری ہیں۔طالبان کے درمیان بڑھتے اختلافات ہی ان دہشت گردوں کے خاتمے کا سبب بنیں گے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن گروہوں میں اختلافات پیدا ہو جائیں ان پر غلبہ پانا آسان ہو جاتا ہے۔ عوام کو دُعا کر نی چاہیے کہ پاکستان افواج جلد ان دہشت گردوں کا خاتمہ کردیں اور ان درندوں سے قبائلی علاقہ جات اور ملک کی سر زمین کو پاک کر دیں۔