جنرل رضوان اختر ۔ باوقار آئینی ادارے کی پُر تاثیر شخصیت
سیّد ناصررضا کاظمی
’ لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ اِن کو کیا بولنا ہے؟ عقلمند آدمی مگر وہ ہے جو یہ بھی جانے کہ اُس کو کیا بولنا نہیں ہے ‘ یہ نہیں جو منہ میں آئے بولتا چلا جائے جو تعصب آلود ہ فکر کچھ لکھنے پر اُسے آمادہ کرئے وہ لکھتا چلا جائے کوئی اِس ناقص وکمرو راہ پر اگر چل نکلے خود کو ادیب ‘ قلمکار ‘ تجزیہ نگار یا صحافی بھی سمجھنا شروع کردے تو سمجھ لیجئے ’بد بختی ‘ نے اُس کا دروازہ دیکھ لیا ہے ایسے میں پھر کیا ہوگا یہ تو سبھی جانتے ہیں بد بختی ہمیشہ اُس دروازے سے داخل ہو تی ہے جو لاپرواہ ‘ خود سر‘ اور کسی حد تک سرکش اور متکبر لوگ اپنے قلب ونگاہ کے دروازے ہمہ وقت کھلے چھوڑ دیتے ہیں جیسا جہاں سے جو خیال آئے وہ بدبخت خیال ہی کیوں نہ ہو، یا سرکش خیال ہی کیوں نہ ہو اُسے اپنے تئیں ایسے زولیدہ فکر قلمکار ’نعمت ‘ سمجھ کر اُسی جستجو کی ٹوہ میں ہر اندھی کھائی میں فوراً کود پڑتے ہیں، مثلاً گزشتہ دنوں جب سے آئی ایس آئی کے نئے ڈائریکٹر جنرل لیفٹینٹ جنرل رضوان اختر کی تعینا تی سے اُن کے اپنے عظیم المرتبت آفس کا باقاعدہ چارج لینے کی خبریں ملکی میڈیا میں آنی شروع ہوئیں تو ’امن کی آشا‘ کا پرچارک پاکستانی نجی مخصوص میڈیا گروپ کی بے چینی اور اضطراب کے عالم کو کسی پل چین نصیب نہیں ہورہا نجانے کہاں کہاں کی خبروں کا پوسٹ مارٹم کرکے اُنہیں تازہ بہ تازہ کرنے کے اُن ’پرانے مضامین ‘ پر نئے سے نئے تجزبے لکھے جا رہے ہیں’آئی ایس آئی‘ پاکستان کی قومی سلامتی کا نہایت اہم اور حساس آئینی ادارہ ہے اِس اہم حساس قومی آئینی ادارے میں ہونے والی اعلیٰ سطحی تعیناتی کی خبروں میں عام پاکستانیوں کوکیا دلچسپی ہوسکتی ہے، ہاں مگر کچھ ملکوں کو آئی ایس آئی کے ہرمعاملے میں ہمیشہ سے بَڑی دلچسپی دیکھی گئی ہے جو ممالک اِن حساس انٹیلی جنس اداروں پر اپنی گہری اور عیارانہ نظر رکھتے ہیں مثلاً سی آئی اے ‘ موساد‘ را‘ افغانی خفیہ ادارے کا شائد دنیا میں اور کوئی کام ہی نہیں جو پاکستان کے لئے اور پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے ہمیشہ دردِ سر بنے رہتے ہیں اُن کا تو غالباً کام یہی ہے جیسے ہم بحیثیتِ باشعور پاکستانی جو اپنے دشمنوں کی ہر قسم کی حرکات و سکنات پر سختی کی نگاہ رکھتے ہیں اُنہیں احساس دلاتے رہتے ہیں ہم سوئے نہیں جاگ رہے ہیں ہر ملک کے حساس اداروں میں تبدیلیاں اور تعیناتیاں ہوتی رہتی ہیں چ گزرے چند برسوں قبل غالباً سات آٹھ برس ہوئے‘ جب سے ٹائمز آف انڈیا اور جنگ گروپ کے اشاعتی ونشریاتی ٹولز نے باہم مشترکہ ایک مشن کے طور ’امن کی آشا‘ کے زیر اہتمام میلے ٹھلیوں کا آغاز کیا،سرحد پار بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی فنڈنگ نے اِن میلوں ٹھلیوں کے لئے اپنے ہاں (سر حد پار) بڑی تیزی رفتار سرگرمیاں دکھانا شروع کردیں لیکن اب تک کئی برس گزر گئے ’امن کی آشا‘ کی ڈولی ایک قدم آگے نہیں بڑھ پا سکی، کسی نے اِس کی وجہ پوچھنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی’امن کی آشا‘ کی فطرت ابتداء ہی سے بدنیتی پر قائم کی گئی تھی سیاسی بالیدگی ‘ سیاسی بالغ نظری اور سیاست کے ساتھ سفارتی نیک نیتی کو بالائے طاق رکھ کر اِس ’خفیہ مفادات ‘ کے خفیہ مشن کا آغاز بہت بھونڈے طریقے سے کیا گیا تھا یقیناًدوطرفہ صحافیوں کی تنظیمیں قائم ہوئیں فنکاروں‘ مصوروں اور تجارتی شعبے سے وابستہ شخصیات سمیت سیاست دانوں کے ’دوستانہ ‘ وفود کے تبادلوں کے سلسلے وقتاً فوقتاً اب تک جاری رہتے ہیں ’امن کی آشا‘ کے دو مذموم مقاصد بڑے واضح اور نمایاں ہیں، پہلا یہ کہ ٹائمز آف انڈیا گروپ میں کئی ممتاز و نامور دولت مند بھارتیوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے ٹائمز آف انڈیا سے جڑے کئی بھی اور منفعت بخش کاروبار چل رہے ہونگے بعینہٰ اِس طرف پاکستان میں امن کی آشا کے جو سرخیل بنے اِس ’بھارتی آشاؤں ‘ کی تکمیل میں گم صم بتوں کی صورت بنے وہ ہر بھارتی خدمات کو بجا لانے میں بیلوں کی مانند جتے نظر آتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جن کی سمجھ وبوجھ کو انڈین ’سمجھ داروں ‘ نے اپنے گھر کی لونڈی سمجھ رکھا ہے اُن کے نزدیک یہ ’آشا ‘ کئی جہت سے بھارتیوں کے گزشتہ67 برسوں کے مکروہ ترین خوابوں کو ہر قیمت پر شرمندہ تعبیر کرنے کی سازش کے آلہ ِٗ کار بنے ہوئے ہے گز شتہ دنوں متذکرہ بالا ’مخصوص گروپ‘ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ایک اخبار میں اُس روز نمایاں مقام پر ایک ’باکس ‘ میں ایک ہی موضوع پر یہ خبریں شائع کی گئی ہیں جنہیں ’خبریں ‘کہنا نامناسب بات ہوگی یہ خبریں نہیں بالکل نہیں تھی بلکہ آئی ایس آئی کے نئے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر کو موضوعِ بحث بناکر پاکستانی عوام کو کمراہ کرنے اور اُن کے 2008 کے ایک ’تھیسس‘کے مندرجات پر اپنے باطل خواہشات کو اُن کے یعنی ’جنرل رضوان اختر ‘ کے خوابوں کو پورے ہونے کا اعلان کرنے کا سہرا اِس مذکورہ خبر اپنے سر باندھنے کی کوشش بلکہ ’ہرزہ سرائی ‘ کرنے کی جسارت کی ‘ اصل میں غالباًمارچ 2008 جنرل رضوان اختر نے امریکا کے آرمی وار کالج پنسلوانیا میں تربیت کے دوران اپنے ’اسٹرٹیجک ریسرچ پیپر‘ میں اُس وقت بحیثیت ’بریگیڈئیر‘ اپنے خیالات کو ’ریسرچ پیپر‘ کا موضوع بنایا تھا ’ معاشی ترقی کے خاطر غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے داخلی سلامتی اور سیاسی استحکام کے بارے میں اپنی رائے تحریر کی تھی کہ پاکستان کی سیکورٹی دینے کا انحصار پاکستان کے اندرونی سیاسی عمل کے اچھی ساکھ کے حامل اور موثر ہونے پر ہے قانون کی بالادستی کامیکنزم قائم کرنے کی شروعات ایک آزاد سیاسی عمل سے ہوتی ہے‘ اِس میں کوئی شک نہیں اُن کی یہ رائے کل بھی صائب تھی اور آج بھی اور اُن کا یہ اندازہ اُس وقت بالکل ٹھیک تھا کہ اِس کے لئے ایک موثر اور آزاد عدالتی نظام اور ساتھ ہی جدید اور اچھے سازوسامان سے لیس پیشہ ور پولیس فورس بہت ضروری ہے ‘ اِس کے آگے اُس عیار قلم کار نے ایک بڑی متنازعہ بحث چھیڑ دی کہ ’جنرل رضوان اختر نے اپنے ریسرچ پیپر میں یہ بھی لکھا تھا کہ’فوج کا کردار صرف بیرونی خطرات سے قوم کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ تک محدود ہونا چاہیئے فوج کو صرف آخری آپشن کے طور پر داخلی سلامتی کے استعمال کرنا چاہیئے‘آمن کی آشا پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لئے اوّل دن سے چیلنج بنی ہوئی ہے جسے کسی اور نے شائد ہی اُس ’اینگلز ‘ سے مانیٹر کیا جسے کسی اور انٹیلی جنس ایجنسی نے نہیں کیا ہوگا یاد ہے نا ایک وقت تھا جب سونیا گاندھی نے کہا تھا ہمیں پاکستان فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے پاکستان کے گھر گھر میں بھارت تو یقیناًثقافتی جنگ جیت چکا ہے اگر ایسا کوئی مکروہ کمال ہوا بھی ہے تو یہ سب گند بلا آمن کی آشا کا کیا دھرا ہے امن کی آشا والے آزار رساں انتہا پسندی کے یہ رسیا جبھی بڑے سیخ پا ہورہے ہیں اگر کسی کو جنرل رضوان اختر کی بطور ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس آئی پیشہ ورانہ کارکردگی اور مہارانہ صلاحیتوں کو کسوٹی پر پرکھنا ہے تو اُنہیں بحیثیت آرمی وار کالج پنسلوانیا کے تربیت حاصل کرنے والے بریگیڈئیر کی حیثیت سے نہ دیکھئے بلکہ جنرل رضوان اختر کو بحیثیت ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجراُن کی مردانہ وار قیادت کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں اُنہیں فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف دوبدو آنے سامنے پاکستان کے دشمنوں اور آئین کے سرکشوں کا سرکچلتے ہوئے دیکھیں اُن کی وہ مفصل رپورٹیں ضرور پڑھیں جو اُنہوں نے بطور ڈی جی سندھ رینجرز سپریم کورٹ میں خود پیش ہوکر فاضل ججز کو پیش کی ہیں نہ کل آئی ایس آئی ملکی سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ میں ملوث تھی نہ آج نہ کبھی اس اہم پُر وقار آئینی قومی ادارے کو اِس کی کوئی ضرورت ہے جنرل رضوان اختر اب ایک اہم آئینی انسٹی ٹیوٹ کے آئینی سربراہ ہیں کسی کو اب یہ حق قطعی نہیں پہنچتا کہ وہ اِتنے اہم اور اعلیٰ عہدے پر فائز باوقار شخصیت کی گزشتہ زندگی کے معاملات پر اپنی سلفی آرزوؤں اور خواہشات کے لیبل چسپاں کرئے۔
’نفسانی خواہشات کا جنون تھوڑی دیر رہتا ہے مگر اِس کا پچھتاوا بہت دیر تک ‘
’دنیا دانش مندی کی امتحان گاہ ہے وہ احتجاج اور غوغا آرائی کا سیاسی پنڈال نہیں ‘
’ پتھر مارنے والے نہ لڑو بلکہ اپنے آپ کو اتنا اونچا اُٹھاؤ کہ پتھر مارنے والے کا پتھر وہاں تک نہ پہنچ سکے
‘
’ یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے جو شخص طلسمات کے سہارے زندہ رہنا چاہتا ہے اُس کو اپنی پسند کے مطابق ایک اور دنیا بنانی پڑے گی‘
’ جو مسئلہ اپنی غلطی مان کر ختم ہوسکتا ہو اِس کے لئے دوسروں سے غلطی منوانے کی کوشش کرنا وقت کا ایسا ضیاع ہے جس کا ارتکاب کوئی نادان ہی کرسکتا ہے