Posted date: September 12, 2015In: Urdu Section|comment : 0
مہم ناصررضا کاظمی
جامعہ ِٗ کراچی کے انتظامی انفراسٹریکچر میں وائس چانسلر کے عمل دخل کا دائرہ کتنا بااثر ہوتا ہے یا ہونا چاہیئے، کیا وائس چانسلر کسی فیکلٹی سے جواب طلبی کرسکتا ہے قوم کو محسوس ہو رہا ہے ہمارے ملک کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں اِن میں قائم ذیلی شعبے (فکلیٹیز) ضرورت سے زیادہ خود مختار ہوتے چلے جارہے ہیں، یا اصل میں یہ شعبے ہوتے ہی خود مختار ہیں ؟ خالصتاًیہ ٹیکنیکل سوال ہے یہاں ایسا سوچنے یا اِس بار میں کالم تحریر کرنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کہ یونیورسٹیوں کی یہ جو ’فیکلٹی ‘ ہوتی ہیں وہ آئے روز اپنے ہاں قومی امور کے بارے میں سیمنارز ‘ بحث ومباحثے اور مذاکروں کا انعقاد کراتی رہتی ہیں یونیورسٹی کے طلباء وطالبات کی علمی استعداد کو فروغ دینے کے حوالے سے یقیناًیہ سب کچھ ضرور ہونا چاہیئے ،اِس پر کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کوئی اختلاف نہیں ہے ‘ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فکری ونظری مباحث میں طے شدہ نظریاتی قومی نکتہ ِٗ نظر پر اگر بلاوجہ کنفیوژن پیدا کردیا جائے تو ہماری نئی نسل ،جس نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوکر مستقبل میں ملک وقوم کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے اُسے باہمی اتحاد کے فکری ہتھیاروں سے لیس کرنے کی بجائے گمراہی کی کھائیوں میں کیوں دھکیل دیا جائے؟ اُنہیں ذہنی خلجان میں مبتلا کیوں کیا جائے ؟اِسی متذکرہ بالا بین السطور سلسلہ کا ایک تازہ ترین واقعہ جامعہ کراچی میں5 ؍ستمبر 2015 کو رونما ہوا اِسے واقعہ کہیں یا حادثہ ،سانحہ کہہ دیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ، پاکستانی قوم اپنا50 واں یومِ دفاع نہایت جوش وجذبے سے منا نے میں منہمک تھی ایسے جذباتی، نازک اور انتہائی حساس لمحوں میں ڈاکٹر ایس زیدی کو تاریخی کنفیوژن پھیلانے کی آخر کیا ضرورت آن پڑی ؟ بقول مسٹر زیدی کے ’ 1965 کی جنگِ ستمبر میں پاکستان کو جیت نہیں بلکہ ’عبرت ناک شکست ‘ ہوئی تھی؟‘ایک طرف پوری قوم، کیا جوان اور کیا بچہ، ہر کوئی جذباتی دیوانہ وار والہانہ وطن پرستانہ احساسات میں مگن جنگِ ستمبر1965 میں پاکستان کی فتح منارہا ہے جبکہ کراچی جامعہ جیسے ملک کی اہم دانش گاہ میں بیرونِ ملک سے خصوصی طور پر مدعو کیئے جانے والے مہمان دانشور ‘ محقق ‘ تاریخ دان پاکستان کی واضح فتح کو ’عبرت ناک شکست ‘ قرار دے رہے تھے بغیر کسی باوثوق اور موثر دلیل اور حجت کے ؟ حیرت ناک بات یہ ہے کہ اُس روز کی نشست میں ہونے والے مکالمہ کا یہ موضوع تھا ہی نہیں یعنی اُن ’صاحب‘ کے تحقیقی تقریر کا دور پَرے سے جنگِ ستمبر 1965 سے کوئی لینا دینا نہیں تھا یقیناًڈاکٹر اکبر زیدی جو سیاسی اقتصادیات کے ماہر بھی ہیں وہ ہماری قومی تاریخ کے اسباق کا ازسر نو جائزہ لینے کے ایک بڑے موضوع پر اپنا نکتہ ِٗ نظر بیان کر رہے تھے ’پاکستان میں تاریخ کے ساتھ بُرا سلوک ہوا ‘ یقیناًیہ بات کرنے کا موضوع بنتا ہے ہر صاحب الرائے کو اِس موضوع پر بات ضرور کرنی چاہیئے لیکن کوئی یہ تو بتلائے تاریخ کے ساتھ کہاں ناانصافی ہوئی ؟ اور اُن ناانصافیوں کے پس منظر اور پیش منظر میں جو قوتیں اور یا جو خفیہ ہاتھ کار فرما رہے اِس پر ڈاکٹر زیدی نے کوئی گہری و بامعنی تشفی بات نہیں کی ، ہم پھر اپنے اُسی پہلے سوال کو دہرائیں گے اپنے وضح کردہ ‘اختیار کردہ مو ضوع سے وہ کیوں لمحہ بھر کے لئے ہٹے؟ درمیان میں ستمبر کی جنگ کی’ فتح وشکست‘ کا مرحلہ کیسے در آیا؟ اِس مرحلہ کو ’موصوف ‘ تشنہ چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ’شکست ‘ وہ بھی ’عبرت ناک ‘؟ نہیں نہیں جناب ! آپ جیسوں کو بالکل زیب نہیں دیتا عالمی سطح پر تحقیق و جستجو اور تاریخ داں کی عبا وقبا آپ نے پہن لی وہ آپ کا حق، مگر18 کروڑ عوام کی امنگوں اور آرزوؤں کو یکلخت’ شکست خوردہ‘ کہنے کا حق آپ کو نہیں پہنچتا، نریندرمودی سرکار کے علاوہ بھارت کی ماضی کی کسی سرکار نے بھی گزشتہ50 برس میں جنگِ ستمبر میں ’جیت اور ہار ‘ کا مسئلہ کبھی نہیں اُٹھایا نریندر مودی چونکہ مسلم دشمنی اور پاکستان مخالفانہ خاص ایجنڈا لے کر نئی دہلی کے ایوانوں تک پہنچا اُس نے پہلی مرتبہ دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے بطور پروپیگنڈا مہم ’بھارتی فتح‘ کا ڈھول انتہائی بے سروپا بیہودگی سے پیٹنا شروع کیا ہے کیا ڈاکڑ ایس اکبر زیدی 5 ؍ستمبر2015 کو نریندر مودی کے اِسی ’ سوڈو پوائنٹ آف ویوو‘ کی نمائندگی کے لئے کراچی جامعہ تشریف لائے ؟ اُنہیں تو بحیثیت تاریخ داں تاریخ کے گمنام اور تشنہ گوشوں پر روشنی ڈالنی تھی وہ پٹری سے اُترے گئے اُنہوں نے اپنے لیکچر میں اپنا بیرونی اور اندرونی تعصب کا سارا غصہ پاکستان پر نکال دیا اُن کا جا معہ کراچی میں دیاگیا یہ لیکچر ہم نے پڑھا لفظ بہ لفظ پڑھا‘ 17 ویں‘18 ویں اور 19 ویں صدی کے مختلف تاریخی حوالوں سے غالباً وہ پاکستانی قوم کی بنیادوں کی نظریاتی اساس کے پہلوؤں کا جائزہ لیتے رہے چونکہ ڈاکٹر زیدی کا زیادہ عرصہ بیرون ملک گزر ا ہے غالباً وہ امریکا میں زیادہ رہے یہاں یہ خاص بات ہمیں خوب ذہن نشین کرلینی ہوگی کہ’ تنقید کے لغوی معنی ہی جانچ اور پرکھ کے ہیںیعنی کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا‘ یہ باتیں نریندرمودی کی موٹی عقل سے بہت بالا باتیں ہیں جنگِ ستمبر 1965 میں پاکستان پر ڈاکٹر زیدی کا طعنہ ذاتی تو ہوسکتا ہے مگر اِس کے معنی یہ نہیں چونکہ وہ تاریخ دان ہیں اِس لئے ’صحیح‘ کہہ رہے ہوں گے ؟پاکستان اور پاکستانی قو م کی تاریخ کے اوراق کی نشست کی درستگی کا نازک معاملہ ڈاکٹر زیدی نے از خود اپنے ہاتھوں میں لیا اور ’دوراز کارِ رفتہ‘ کی تاریخ کی گوشمالی کرتے کرتے نجا نے اُنہیں کیا سوجھی کہ اُنہوں نے پاکستان کی نئی نسل کی بپھرتی ہوئی رگوں کو مسلنے ڈالنے کی ایسی ہرزہ سرائی کرڈالی ،جس کا انجام بھی دیکھ لیا فیس بک ‘ ٹوئیٹر دنیا بھر کے جدید سائنسی مواصلاتی سسٹم پر اُنہیں کیا کیا کچھ نہیں کہا جارہا ہے ،طے شدہ تاریخی اُصولوں پر تنقید نگار تاریخی علماء کا فرض بنتا ہے کہ وہ ’تنقید سے تخلیقی اور تعمیری کام لیں‘نہ کہ تخریب اور فکری انتشار کو ہوا دیں بعض نقاد یہاں تک کہتے ہیں’ نقاد کو معائب کی طرف جانا ہی نہیں چاہیئے‘ ڈاکٹر زیدی جیسے ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں، بعض اوقات تاریخی تنقید نگاروں کے لبادوں میں وہ بھی اپنی ’کم علمیوں‘ کی بناء پر اکثر وبیشتر تنقید کرتے وقت آپے سے باہر ہوکر ذاتیات کی بحث میں الجھ پڑتے ہیں تاریخ کی ایسی متنازعہ بحثوں جن میں ذاتی قضیوں کی بحث چھیڑ دی جائے، ایسی’ تنقید‘ کو صحیح اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا تاریخی حقائق بھی ایسی متعصبانہ تنقید کو جھٹلا تے ہیں۔