Posted date: June 12, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
تلہ گنگ کراسنگ راولپنڈی میں عسکری اداروں کے دو اہم عہداروں سمیت کئی افراد دہشت کا شکار ہوئے اور اس کے ساتھ ہی کراچی ائیر پورٹ کی عمارت میں گھس کر دہشت گردوں کے دوگروہوں نے تباہ کن آتش وآہن کا انسانیت سوز بازار گرم کردیا ،کراچی تا خبیر تک دہشت گرد ایک بار پھر اپنی انسانیت کش مذموم و مکروہ سرگرمیوں میں یوں ملوث ہوئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ شائد اب یہ جنگ بات چیت یا مذاکرات کے ذریعے سے شائد ہی تھمے بقول کسے‘ سابق امیر جماعتِ اسلامی منور حسن کے‘ انسانیت کے دشمن اُن کے یہ’ہیروز‘ دہشت گرد جنہیں وہ ’ شہید‘ کہتے ہیں اور ‘ مظلوم بھی‘ اِن مسلح دہشت گردوں کے ساتھ کون کیا ظلم کررہا ہے ؟اِن کے مطالبات کیا ہیں ؟ جن مطالبات کے پورا نہ ہونے کے عوض اِ ن دہشت گردوں ‘ جن کی اکثریت ’غیر ملکیوں ‘ کی ہے دور پرے سے بھی جن کا تعلق سرزمینِ پاکستان سے بالکل نہیں ہے، اِنہوں نے ‘پاکستانیوں کو اپنا ’خونی ہدف‘ کیوں بنایا ہوا ہے؟ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی جماعتِ اسلامی سمیت یا دیگر سیاسی ونیم سیاسی جماعتوں اور ملکی پریس میں موجود اِن کے چند حمائتی اِن سوالوں کے جواب دینے کے لئے کبھی سامنے نہیں آ ئے کہ ’دہشت گردی کو پُرامن مذاکرات کے مسلسل عمل ذریعے سے ختم کیا جائے؟ مگر کیسے؟ پُرامن مذاکرت کا سلسلہ شروع کرکے دیکھ لیا گیا ’’نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ عوام مسلسل پریشان حال ‘ عدم تحفظ سے دوچار ‘ نہ اُن کے گھر محفوظ ہیں نہ کاروبار نہ وہ خود محفوظ نہ اُن کے اہلِ خانہ ‘ خبیر سے کراچی تک عوام آخر جائیں تو کہاں جائیں؟ فریاد کریں تو کس سے کریں ؟پاکستانی مغربی اور مشرقی سرحدیں افواجِ پاکستان کے لئے روز بروز کڑی سے کڑے امتحان کی صورت بنتی چلی جارہی ہیں جبکہ آئے روز کی ملکی اندر ونی امن وامان کی تشویش ناکی میں بیرونی سرحدوں سے زیادہ سنگینی کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ایسی انتہائی لمحہ ِٗ فکریہ کی حیران کن صورتحال میں جماعتِ اسلامی سمیت پارلیمان کے اندر اور باہر کی سیاسی جماعتیں جنہیں پاکستان کے اندرونی امن وامان سے کوئی دلچسپی نہیں‘ پاکستانی عوام ‘ پاکستانی سیکورٹی کے اداروں ‘ ملکی سول آرمڈ فورسنز‘ پولیس‘ ایف سی ‘ ایف ایس ایف کی بجائے ’’ ازبک اور چیچن‘‘ مسلح دہشت گردوں کے لئے تحفظ وبقاء کی فکرمیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار چند سیاسی ومذہبی زعما’جنونی آئیڈیل پرستی ‘ کے پیرامیٹر سے باہر نکل کر زمینی حقائق کو نظر بھر کر دیکھنا نہیں چاہتے آخر کیوں ؟ کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مقصد کیا نکلا ؟بالآخر ہوا وہ ہی نا ‘ دہشت گردوں نے چاہے وہ شمالی وزیر ستان میں بیٹھے ہوں یا سر حد پار افغانستان کی ریاستی سرپرستی میں اپنے وجود کی موجودگی کا جس بزدلانہ اور غیر اخلاقی جواز کا سہارا لے کر پُرتشدد ا ور بہیمانہ انداز میں عالمی سطح کی ایٹمی ریاست پاکستان کو اب سرعام للکارنا شروع کردیا ہے اِس کا اصل مقصد اِس کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا ہے ‘ کہ ملکی فضاء کو یہ لوگ مزید پراگندہ کرکے سیکورٹی فورسنز کے اہم خفیہ اداروں کے عزائم کو ’زچ ‘ کر نا چاہتے ہیں مگر اُن کی یہ تمام مذموم ناپاک کوششیں بپھرتے ہوئے عوامی ردِ عمل کے تیز‘ لمبے اور نوکیلے کانٹے ثابت ہو ئیں جس کا اخلاقی ادراک اِن بکاؤ ’کمرشلائزڈ میڈیا گروہوں ‘کو، جن کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ قومی شناخت کی اِنہیں کوئی پرواہ‘ وہ سب کے سب اپنے منہ میں اب اپنے ہی ہاتھوں کے ناخن کترتے دکھائی دے رہے ہیں،دہشت گردوں کی صورت میں ’لاپتہ ‘ افراد کے یہ نام نہاد حمائتی رہی سہی‘
اعلیٰ و ارفع انسانی اخلاقی حمایت سے ہاتھ دھوبیٹھے پاکستان کی مقننہ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا سمیت ‘حزبِ اختلاف اور باہر بیٹھے ہوئے سبھی سماجی ومعاشرتی پریشر گروپس نے بالآخر یہ تسلیم کرلیا کہ کل بھی افواجِ پاکستان کا پوائنٹ آف ویوو صحیح تھا آج بھی یہ چالکل سچ ثابت ہوا کہ ’عوامی ردِ عمل ‘ کا ویژن سمجھے بغیر جتنی بڑی تعداد میں جتنے بڑے فیصلے کرلیں ایسے کمزور وناتواں فیصلوں کو حقائق کی سچائی بکھیر دیا کرتی ہے پاکستانی دفاعی اداروں کے ادارہ جاتی ڈسپلن کے علاوہ اگر بغور جائزہ لیں تو یہ ایک نکتہ ایسا ہے جس ہر ہمیں بحرحال افسوس سے یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ پاکستانی میڈیا خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا ( وقت نیوز چینل اور روزنامہ نوائے وقت ) کے سوا ‘ چونکہ نوائے وقت اور وقت نیوز چینل خالصتاً صحافی مالکان کا چینل ہے’نظریاتی نیوز چینل ہے ملک بھر میں دکھائے جانے والے باقی دیگر چینلز اور اخبارات کے مالکان ( چند ایک کو چھوڑ کر) تاجر ہیں یا صنعت کار ‘ جب ایسا ’ Raw material‘فیصلہ کن مالکان کی صورت میں ایک طاقت کا روپ دھار لے یہ لوگ ’صحافت کے حقیقی معمار کا لبادہ اُ و ڑھ لیں جن میں صحافتی بصیرت ’کمرشلائزڈ‘ خوبی ٹھہرے ریاست اور ریاست بھی ایسی‘ جسے ابھی اور مزید مضبوط بنیادوں پر اپنے نظریاتی مآخذ کی معروضیت کی روشنی میں اپنے جمہوری سفر کو کہیں روکے بغیر آگے ہی آگے بڑھانا ہے ایسی ریاست پر میڈیا کی آزادی کے نام پر یہ غیر پیشہ وراافراد ’عوام کو سچ ‘ پہنچانے کا فریضہ ادا کرنے لگ پڑیں اور ’ سچ ‘ کے نام پر ریاست کے پیروں کے نیچے سے قالین کھینچنے لگ جائیں تو پھر ریاسی انفراسٹریکچر کا حال کیا ہوگا دیگر قومی اداروں میں نفسانفسی کی بدحالی قوم کے کسی بھی فرد سے نہ چھپی ہوئی نہ پوشیدہ‘جیو گروپ کو حد سے زیادہ چھوٹ دینے کا نتیجہ دیکھ لیا قوم نے ‘ جیو نے سمجھا تھا قوم امن کی آشاکی اسیر بنی ہوئی ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم اور بھارتی ٹیم کے ساتھ جب بھی کہیں کوئی میچ پڑا مقبوضہ جموں وکشمیر سے چترال ‘ بلوچستان پنجاب ‘خیبر پختونخواہ اور کراچی تک پاکستانی قوم کی سوچ اور خواہش کا صرف ایک ہی رنگ نہیں ہوتا؟پاکستانی ٹیم کی ہرقیمت پر جیت اور بھارت کی ہار ہرایک پاکستانی کی خواہش ‘ ایسی ہی جنونی جذباتی سوچ بھارت دیش میں بھی پھیلی ہوتی ہے ٹائمز آف انڈیا بھی ’را‘ سے خوب دولت سمیٹ رہا ہے اور ٹائمز آف انڈیا کی امن کی آشاسے جڑا یہ گروپ بھی ‘ اِن کی سمجھ کم ہے یا عقل کہیں گم ‘ دوقومی نظرئیے کی اِس بہتر اور آسان کوئی اور مثال کیا پیش کی جائے جہاں تک افواجِ پاکستان‘ اِس سے وابستہ حساس ادارے آئی ایس آئی کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے ‘ اِن کی ماہرانہ اہلیت سے ‘ سریع الحرکت ہشیار قابلیت کی صلاحیتوں سے ’حسد یا مخاصمت ‘ رکھنے میں میڈیا کے جو حلقے براہ راست یا ڈھکے چھپے انداز میں اپنی مذموم و مکروہ عزائم مختلف ملفوف لب ولہجے میں کہتے یا لکھتے ہیں اصل میں یہ اپنی بے بسی کی مختلف النوع قسم کی مفاداتی محرومیوں کے ازالہ کے لئے اور پاکستان دشمن عالمی مقاصد رکھنے والی عالمی خفیہ ایجنسیوں سے کچھ لینے کی لالچ کی رُومیں بہہ کرتے یہ جرائم کرتے چلے آرہے ہیں پاکستانیوں کو یقیناًیہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے اندرونی امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کے لئے مستقبل قریب میں دہشت گردی بڑی خوفناک وارداتیں بڑھ سکتی ہیں پاکستانی قوم اور افواجِ پاکستان اِس مشکل تباہ کن وقت سے نمٹنے کے لئے اب اور زیادہ مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ اِسی طرح جم کر کھڑے رہنا ہوگا اللہ تعالیٰ کے بعد قوم کو ملکی افواج پر مکمل بھروسہ کرکے آنے والی ممکنہ دہشت گردی کے ناسوو کو اپنے حوصلے اور عزم سے کام لے کر دہشت گردوں کی بچی کچھی صفوں کو تتر بتر کردینا ہے انشاء اللہ۔