م و مکروہ سرگرمیوں میں یوں ملوث ہوئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ شائد اب یہ جنگ بات چیت یا مذاکرات کے ذریعے سے شائد ہی تھمے بقول کسے‘ سابق امیر جماعتِ اسلامی منور حسن کے‘ انسانیت کے دشمن اُن کے یہ’ہیروز‘ دہشت گرد جنہیں وہ ’ شہید‘ کہتے ہیں اور ‘ مظلوم بھی‘ اِن مسلح دہشت گردوں کے ساتھ کون کیا ظلم کررہا ہے ؟اِن کے مطالبات کیا ہیں ؟ جن مطالبات کے پورا نہ ہونے کے عوض اِ ن دہشت گردوں ‘ جن کی اکثریت ’غیر ملکیوں ‘ کی ہے دور پرے سے بھی جن کا تعلق سرزمینِ پاکستان سے بالکل نہیں ہے، اِنہوں نے ‘پاکستانیوں کو اپنا ’خونی ہدف‘ کیوں بنایا ہوا ہے؟ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی جماعتِ اسلامی سمیت یا دیگر سیاسی ونیم سیاسی جماعتوں اور ملکی پریس میں موجود اِن کے چند حمائتی اِن سوالوں کے جواب دینے کے لئے کبھی سامنے نہیں آ ئے کہ ’دہشت گردی کو پُرامن مذاکرات کے مسلسل عمل ذریعے سے ختم کیا جائے؟ مگر کیسے؟ پُرامن مذاکرت کا سلسلہ شروع کرکے دیکھ لیا گیا ’’نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ عوام مسلسل پریشان حال ‘ عدم تحفظ سے دوچار ‘ نہ اُن کے گھر محفوظ ہیں نہ کاروبار نہ وہ خود محفوظ نہ اُن کے اہلِ خانہ ‘ خبیر سے کراچی تک عوام آخر جائیں تو کہاں جائیں؟ فریاد کریں تو کس سے کریں ؟پاکستانی مغربی اور مشرقی سرحدیں افواجِ پاکستان کے لئے روز بروز کڑی سے کڑے امتحان کی صورت بنتی چلی جارہی ہیں جبکہ آئے روز کی ملکی اندر ونی امن وامان کی تشویش ناکی میں بیرونی سرحدوں سے زیادہ سنگینی کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ایسی انتہائی لمحہ ِٗ فکریہ کی حیران کن صورتحال میں جماعتِ اسلامی سمیت پارلیمان کے اندر اور باہر کی سیاسی جماعتیں جنہیں پاکستان کے اندرونی امن وامان سے کوئی دلچسپی نہیں‘ پاکستانی عوام ‘ پاکستانی سیکورٹی کے اداروں ‘ ملکی سول آرمڈ فورسنز‘ پولیس‘ ایف سی ‘ ایف ایس ایف کی بجائے ’’ ازبک اور چیچن‘‘ مسلح دہشت گردوں کے لئے تحفظ وبقاء کی فکرمیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار چند سیاسی ومذہبی زعما’جنونی آئیڈیل پرستی ‘ کے پیرامیٹر سے باہر نکل کر زمینی حقائق کو نظر بھر کر دیکھنا نہیں چاہتے آخر کیوں ؟ کل جماعتی کانفرنس میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مقصد کیا نکلا ؟بالآخر ہوا وہ ہی نا ‘ دہشت گردوں نے چاہے وہ شمالی وزیر ستان میں بیٹھے ہوں یا سر حد پار افغانستان کی ریاستی سرپرستی میں اپنے وجود کی موجودگی کا جس بزدلانہ اور غیر اخلاقی جواز کا سہارا لے کر پُرتشدد ا ور بہیمانہ انداز میں عالمی سطح کی ایٹمی ریاست پاکستان کو اب سرعام للکارنا شروع کردیا ہے اِس کا اصل مقصد اِس کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا جاسکتا ہے ‘ کہ ملکی فضاء کو یہ لوگ مزید پراگندہ کرکے سیکورٹی فورسنز کے اہم خفیہ اداروں کے عزائم کو ’زچ ‘ کر نا چاہتے ہیں مگر اُن کی یہ تمام مذموم ناپاک کوششیں بپھرتے ہوئے عوامی ردِ عمل کے تیز‘ لمبے اور نوکیلے کانٹے ثابت ہو ئیں جس کا اخلاقی ادراک اِن بکاؤ ’کمرشلائزڈ میڈیا گروہوں ‘کو، جن کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ قومی شناخت کی اِنہیں کوئی پرواہ‘ وہ سب کے سب اپنے منہ میں اب اپنے ہی ہاتھوں کے ناخن کترتے دکھائی دے رہے ہیں،دہشت گردوں کی صورت میں ’لاپتہ ‘ افراد کے یہ نام نہاد حمائتی رہی سہی‘