Posted date: December 30, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا ہے کہ خودکش حملہ کرنا سنگین جرم ہے۔ یہ کاروائیاں وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں جہنم میں جانے کی جلدی ہے۔ خودکش حملے مسلمان نوجوان طبقے کو گمراہ اور تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ دینِ اسلام تو کسی ایک شخص کی جانب سے خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے پھر خود کش حملے کس طرح جائز ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خودکش حملہ آور نا صرف مسلمان بلکہ انسانیت کا دشمن ہیں اور ایسا وہی کرتا ہے جسے جہنم و اصل ہونے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ خود کش حملے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عام شہریوں کی ہلاکت غیر اسلامی ہیں۔انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ اور اس کی امانت ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ حضور ﷺ نے خودکشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب شخص کے بارے میں کہا ہے کہ:
“وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔”
جب اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے معصوم مسلمانوں کی قیمتی جانیں لینے کی اجازت دے۔ وہ کم سِن نوجوان جو دہشت گردوں کی طرف سے brain washing کیے جانے ، شہادت اور جنت کے لالچ میں خودکش حملوں کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے خودکشی کرنے والے کے لیے جہنم کی دائمی سزا مقرر کی ہے۔ خودکشی کرنے والا چاہے کتنا ہی بہادر اور مجاہد فی سبیل اللہ کیوں نہ ہو وہ ہر گز جنتی نہیں ہو سکتا۔ خودکشی خدا کے اختیارات میں مداخلت ہے ۔ جس نے خود کو مار دیا اس نے نہ صرف خدا کی نا شکری کی بلکہ اس کے اختیار کو چیلنج بھی کیا۔ یہ اسی طرح ہے کہ اگر کوئی کہے کہ” اے خدا اگر تو نے مجھے زندگی دی ہے تو وہ مجھے نہیں چاہیےاور تو دیکھ کہ میں نے اسے ختم کر دیا ہے”۔ اسی لیے اسلام نے خودکشی کو قطعاً حرام قرار دیا ہے اور آخرت میں اس کے مرتکب شخص کے لیے دردناک عذاب رکھا ہے۔
اسلام ایک پرامن مذہب ہے جو سلامتی، رواداری اور مساوات کا درس دیتا ہے اور بے گناہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے قتل کو گناہِ عظیم قرار دیتا ہے۔ اسلام میں خود کش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کرنا انتہائی مستحسن قدم ہے۔ اسلام تو ان تمام شدت پسند کارروائیوں کی بھرپور مذمت کرتا ہے جس میں معصوم عوام، بے زبان جانوروں اور بے ضرر عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو پھر کیونکر اس رحمت والے دین میں خودکش حملوں کی کوئی گنجائش موجود ہو۔ طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہ پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے لیے پاکستان میں خود کش حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے اس گھناؤنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں لے چکے ہیں۔
طالبان پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے بہت سے معصوم اور نہتے لوگوں کو اپنے ظُلم کا نشانہ بنا رہے رہیں۔ خودکش حملہ آور بنانے کے لیے دہشت گرد معصوم بچوں کو ذہنی طور پر اتنا مفلوج کر دیتے ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں اور خودکشی جیسے قبیح فعل کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ طالبان دہشت گرد اسلام کے نام پر خودکش حملے کر کے معصوم و بے گناہ عوام کا خون بہاتے ہیں اور اسے اسلام کا پسندیدہ عمل یعنی جہاد قرار دیتے ہیں۔ جس سے پوری دنیا میں حقیقی اسلام کے تصور کو زک پہنچ رہی ہے۔ دہشت گردی اور خودکش حملوں کے خلاف یہ فتویٰ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد طالبان کی طرف سے کیے جانے والے بم دھماکے اور خودکش حملے بالکل حرام اور ناجائز ہیں اور جہاد کے بابرکت نام کو بدنام کرنے کے مترادف ہیں۔ ان شیطان صفت دہشت گردوں کا مقصد صرف پاکستان کے امن کو خراب کرنا اور عوام و حکومت کو ہراساں کر کے خفیہ مقاصد کو پورا کرناہے۔ اس فتویٰ سے قبل متعدد بار علماء کرام بھی خودکش حملوں اوردہشت گردی کے خلاف فتوے ٰ دے چکے ہیں ۔ جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ صرف ان ملک دشمن عناصر کو چھوڑ کر باقی تمام لوگ اسلام اور پاکستان کے ہمدرد اور خیرخواہ ہیں اور حقیقی جہاد کو اسلام کا فریضہ قرار دیتے ہیں ۔ طالبان دہشت گرد خود تو اپنی آخرت خراب کر ہی چکے ہیں لیکن لوگوں کی ہنستی بستی زندگی میں بھی زہر گھول رہے ہیں۔ مگر ان دہشت گردوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ حکومت ، عوام اور علماءکرام دہشت گردی اور خودکش حملوں کے خلاف ہیں اور ان کو روکنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے تاکہ اسلام کے خوبصورت نام پر کوئی آنچ نہ آسکے۔