داخلی خطرات پر توجہ۔ملکی استحکام کے لیے ناگزیر
پاکستان کی حالیہ صورتحال کے پیشِ نظر جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے 35,000 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور آئے دن دہشت گرد حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ اندرونی سلامتی کو یقینی بنانا ایک ناگزیر عمل بن چکا ہے۔اسی پس منظر میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اندرونی خطرات کو بیرونی خطرات کی طرح اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔اگر پاکستان کی موجودہ سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ اندرونی خطرات نے پاکستان کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرنا ملکی سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
گزشتہ 10 سالوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ نے طرح طرح کے مسلح گروہوں کو جنم دیا ہے جو وطنِ عزیز کی جڑوںکو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت، قوم پرستی اور لسانی بنیاد پر فسادات نے پاکستان کو ایک نہایت مشکل دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان نے خودکش حملے اور بم دھماکے کر کے معصوم پختون عوام کی زندگیاں اجیرن کر دیں۔ اس شدت پسند گروہ نے اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی تکمیل کے لیے پورے ملک میں دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کر دیں اور پھر ملک میں خودکش حملوں ، بم دھماکوں ، مساجد، سکولوں، ہسپتالوں اور بازاروں میں حملوں کا تانتا بند گیا۔ ساتھ ہی فرقہ پرست گروہ لشکر جھنگوی نے جنوبی پنجاب، بلوچستان ، کرم ایجنسی، کراچی اور گلگت بلتستان میں اہلِ تشیع پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تا کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد پر ایک نیا محاذ کھولا جا سکے۔ بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں اور اپنی مذموم کاروائیوں سے علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت بخشتی رہیں۔ اس شورش زدگی کو مزید ہوا دینے کے لیے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے ایک شیطانی کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان دشمن عناصر کی مالی معاونت کی تا کہ پاکستان میں مزید بدامنی پھیلائی جا سکے۔ دشمن ممالک کی یہ سوچ ہے کہ پاکستان کو ان دہشت گرد گروہوں کے ذریعے داخلی انتشار کا شکار کر دیا جائے تا کہ یہ بیرونی حملوں کا سامنا نہ کر سکے۔ ان ممالک کی سازشوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را ‘ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔تاہم ہماری فوجی قیادت نے دشمنوں کی اس گھناؤنی سوچ کو بھانپتے ہوئے تخریب کار گروہ کے سدِ باب کا بیڑا ُٹھایا ہے تا کہ ملک کو اندورنی طور پر مستحکم رکھا جا سکے اور بیرونی خطرات سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔
ناقدین کا یہ دعوہ کہ اب ہندوستان سے دفاع پاکستانی افواج کا متمعِ نظر نہیں رہا حقائق کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ درحقیقت پاکستان کو لاحق اندرونی سلامتی کے خدشات ہندوستان کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ ملک میں متحرک دہشت گرد کسی نہ کسی طرح بھارت کے خفیہ اداروں سے منسلک ہیں۔ لہذا ان کا خاتمہ بھارت ہی سے دفاع کی حکمت ِ عملی کا ایک پہلو ہے۔ 1971 کی جنگ میں ایسے ہی حربے چلا کر بھارت نے مشرقی پاکستان کو ملک سے علیحدہ کیا تھا۔ 1971 کی جنگ میں اندورنی سلامتی کے تقاضوں کو بر وقت نہ سمجھنا اور مُکتی باہنی سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات نہ لینا ہی سقوطِ ڈھاکہ کا باعث بنا۔ لہذا موجودہ حالات میں اندورنی سلامتی کو درپیش خدشات کو نظرانداز کرنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
داخلی سلامتی کے امور پر فوج کا عمل دخل کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری افواج اندرونی محاذ پر پہلے بھی لڑ چکی ہیں۔ 1973 میں دشمن کی ایما پر بلوچستان میں بغاوت نے سر اٹھا لیا۔ حکومت نے باغیوں کا قلع قمع کرنے کا بیڑا پاک فوج کے سر پر ڈالا۔ اس بغاوت کو کچل کر ہماری افواج قوم کے آگے سرخرو ہوئی۔1991 میں کراچی کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کی گئی۔ شہر کو محاذِ جنگ بنا دیا گیا ایسے حالات میں حکومت نے کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا۔ ایک کامیاب آپریشن کر کے پاک فوج نے کراچی کا امن مکمل طور پر بحال کیا۔ کرم ایجنسی میں کئی بار فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکائی گئی جسے ٹھنڈا کرنے کے لیے فوج کو مداخلت کرنی پڑی۔
موجودہ صورتحال میں بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہ ہندوستان کے مکمل تعاون سے متحرک ہیں۔ فاٹا میں ٹی ٹی پی نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور ملک میں لشکرِ جھنگوی جیسے ملحق فرقہ وار گروہ عوام کو آپس میں لڑوانے کی سر توڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لہذا اس وقت اس امر کی ضرورت ہے کہ اندورنی سلامتی کو مضبوط کیا جائے بروقت اور دانش مندی پر مبنی ہے۔ لیکن اس حکمتِ عملی کو یہ غلط تاثر دینے کی کوشش نہ کی جائے کہ ہماری فوج اندرونی خطرات کی وجہ سے بیرونی خطرات سے نمٹنے کے قابل نہیں۔ پاک فوج ان خطرات سے نمٹنے کے لیے آج بھی اتنی ہی صلاحیت رکھتی ہے جتنی پہلے رکھتی تھی۔سیکورٹی فورسز اور پاک فوج کے خلاف کیے جانے والے پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں ان حالات کا ادارک کر کے ملک کو مستحکم کرنے میں اپنی افواج کا مکمل ساتھ دینا چاہیے۔