Posted date: September 12, 2015In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
ستمبر 1965 پاکستان پر بھارت نے حملہ کیا میں اس تفصیل میں نہیں جاؤنگی کہ بھارت نے رات کے اندھیرے میں حملہ کیا، اچانک کیا، اس کا ناشتے کا پروگرام تھا۔ یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی کہ کیسے اس کے تمام ارادوں کو ناکام بنادیا گیا۔ لاہور جم خانہ میں کھانا کھانے کی حسرت بھی جنرل چودھری کے دل میں رہ گئی۔ اس کی زیر کمان فوج رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاکرواہگہ کی سرحد اور اس کے مضافات میں واقع علاقوں تک تو پہنچ گئی لیکن جونہی ان کی حرکت محسوس کرلی گئی اس کے بعد اس کے فوجیوں کو قدم جمانے تو کیاقدم رکھنے کی بھی فرصت نہیں ملی۔ اس جنگ اور اس کے واقعات کے چشم دید گواہ ابھی اس دنیا میں موجود ہیں بھارت کا غیر اعلانیہ حملہ اور پاک فوج کا لاہور کا کامیاب دفاع ابھی انہیں یاد ہے وہ فوجی بھی زندہ ہیں جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا لیکن اس کے باوجود تاریخ کومسخ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور یہ کوشش زیادہ تر خود کو نمایاں اور مشہور کرنے کے لیے کی جاتی ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم قومی مفاد کو کہیں ایک طرف رکھ کر اپنے ذاتی نام ونمود کی خاطر ایسے تمام اوچھے ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور ہماراالیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا بھی ان خیالات کی نشر واشاعت شروع کردیتا ہے بغیر اس خیال کے کہ اس سے ملکی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچے گااور یہ بھی کہ تاریخ کے ساتھ ہم جو کررہے ہیں تاریخ بھی ہمارے ساتھ وہی کرے گی۔ حال ہی میں کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے ساتھ ایسا ہی کھیل کھیلا گیا جب ڈاکٹرسید اکبر زیدی نے پاکستان کی تاریخ پر سوال اٹھاتے ہوئے لیکچر دیا اور اس کی روداد کو ڈان نے اپنے پانچ ستمبر کی اشاعت میں جگہ دی ،شائع کیااور اسے فکر انگیزبھی قرار دیا۔ انہوں نے قدیم اور جدید دونوں تاریخوں پر اعتراضات کئے اور غیر منطقی کیے مثلاً انہوں نے درسی کتابوں میں لکھے اس جملے پر اعتراض کیا کہ پاکستان اس دن وجود میں آگیا تھا جب مسلمان 712ء میں سندھ اور ملتان میں داخل ہوگئے تھے ان کا کہنا تھا کہ مسلمان سب سے پہلے جنوبی ہندوستان میں کیرالہ میں تجارت کے سلسلے میں آئے ۔وہ یہ بات کرتے ہوئے دو باتیں بھول گئے نمبر ایک کہ ملک تاجروں سے نہیں حکمرانوں سے بنتے ہیں اور دوسرا یہ کہ کیرا لہ پاکستان میں شامل نہیں ہے لہٰذا ان دونوں باتوں اور واقعات کو جوڑنے کی تک نہیں بنتی۔ انہوں نے قرار داد پاکستان کو بھی موضوع بحث بنایا لیکن پھر بھول گئے کہ قرارداد نے مسلمانوں اور ہندؤں کو دو الگ قومیں بتایا اور قوم کے لیے ملک ہونا ضروری ہوتا ہے لہٰذا پاکستان کا وجود میں آنا ناگزیر بن گیا۔ پھر پاکستان بننے کے بعد اور پاک بھارت جنگوں اور تعلقات کو بھی موضوع بنایا گیا۔چھ ستمبر یوم دفاع سے عین ایک دن پہلے ڈان نے ان خیالات کو شائع کیا جس میں ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں کہ پاکستان نے ستمبر 1965کی جنگ جیت لی۔ خدا جانے وہ جنگ کو دو ملکوں کے درمیان ہاکی یا کرکٹ یا کسی اور کھیل کا میچ سمجھ رہے ہیں جس میں رنز یا گولوں کی گنتی پر فیصلہ ہوجائے گا چلیے اگر ایسا بھی ہے تو پھربھی فوجوں کی افرادی قوت اور اسلحے کی تعداد و مقدار میں مقابلہ بھی ضروری ہے اور پھر دونوں فوجوں کی کامیابی وناکامی کا تناسب بھی اور اگر ایسا کیا جائے تو شاید ڈاکٹر زیدی اور ان جیسے دوسرے دانشوروں کے شکوک و شبہات دور ہوجائیںیہ تقابلی جائزہ تو عددی حساب سے ہوگا لیکن تاریخ کے پاس اس جنگ کے بارے میں بے شمار دوسرے واقعات موجود ہیں جو پاک فوج کی کامیابی کا ثبوت ہیں ان میں چند ایک یا داشت تازہ کرنے کے لیے لکھ رہی ہوں لوگوں کو اب بھی یاد ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چونڈہ میں جو ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی اسے دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی دوسری بڑی لڑائی کہا گیا جس میں شواہد اور رپورٹس کے مطابق بھارت نے اپنے چھ سو ٹینک جھونکے لیکن پاک فوج نے ان میں چار سو کو اسی میدان میں دفن کردیا۔ پاک فضائی فوج نے اس جنگ میں کامیابی کے جو جھنڈے گاڑے کیا وہ فتح کا نشان نہیں ہے۔ ایم ایم عالم نے چشم زدن میں دشمن کے پانچ طیاروں کو جس طرح زمین بوس کیا دشمن تو کیا اس کا بدلہ لیتا آج تک کوئی دوسرابھی ایسا کارنامہ سرانجام نہ دے سکا۔ اس وقت کی پاکستان کی واحد آبدوز غازی نے بھارت کی نیوی کو ساتھ جو سلوک کیا وہ اب بھی بھارت کے اعصاب کے کھچاؤ کے لیے کافی ہے دوار کا کی تباہی اس کے لیے اب بھی بھیانک خواب جیسی ہے۔
ڈاکٹر موصوف ان کامیابیوں کو اگر درخوراعتنا نہیں سمجھتے تو یہی دیکھ لیں کہ پاک فوج نے اپنے سے تین گنا بڑی فوج کے ارادوں کے آگے کس طرح بندھ باندھا، کشمیر تو کشمیر حاجی پیر بھی نہ دینے کا فیصلہ کیا اور دیا بھی نہیں۔ کھیم کرن، فاضلکا، چھمپ جوڑیاں اور چونڈہ سب میں بھارت کو جو سبق دیا وہ اس کو تہس نہس کرنے کو کافی ہوگیا اور یہی وہ سب کچھ تھا جس نے بھارت کو مجبور کردیا کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی مدد لے کر پاکستان کو جنگ بندی پر آمادہ کرے اور مزید ہزیمت سے بچ سکے۔ کیا یہ سب کچھ بھارت کی شکست کا ثبوت نہیں۔
ہماری نئی نسل کو اگر ڈاکٹر زیدی جیسے دانشوروں کے حوالے نہ کیا جائے اور یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں ان جیسے لوگوں کو مدعو ہی نہ کیا جائے اور یا انہیں تاریخ کا قتل نہ کرنے کا پابند بنایا جائے اور ہمارے ہر قسم کے میڈیا کو بھی ایک ضابطہء اخلاق دیا جائے کہ قومی مفاد کے خلاف اور حقائق کو مسخ کرنے والا مواد نہ نشر کیا جائے اور نہ اس کی اشاعت کی جائے تاکہ ہماری نئی نسل حقائق سے آگاہ ہو اور دشمنوں کے وار سے قوم اور ملک کو بچایا جا سکے۔