Posted date: August 12, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصررضا کاظمی
کسی بھی قوم میں طاقت کا احساس اُس وقت پید ا ہوتا ہے ،جب وہ ’ابھی یا کبھی نہیں ‘ کی جذباتی احساسا ت کی شدت سے دوچار ہوتی ہے اِیسے ہی انتہائی شدید ا ضطرابی اور متحرک حالات میں ایسی قوموں کی خوابیدہ طاقتیں ہر حال میں کچھ کر گزرنے کا اپنے میں ایساعزم اوروہ پختہ ارادہ بالا آخر اجاگر کرلیتی ہیں اور اُس بے چینی وکرب کے مقابلے میں ہر قیمت پر اپنے آپ کو نظری وفکری انتشار کے خلفشار سے نکالنے کے لئے اپنے اند ر ایک ناقابلِ تسخیر‘ غیر متزلزل اتحاد اور ناقابلِ شکست منظم یکجہتی کی طاقت دنیا کو دکھا نے کے لئے میدان میں عمل میں اُتر آتی ہیں جس کی اُنہیں شائد ہی کبھی کوئی امیّد ہی نہ ہو ‘ آج سے 68-69 برس قبل 14؍اگست1947 کوغیر منقسم ہند کے مسلمانوں کی واضح بڑی اکثریت نے مسلم لیگ کے صفِ اوّل کے قائد قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز اور بصیرت آفروز قائدانہ صلاحیتوں کے نتیجے میں انگریز سامراج کے خلاف ایسی ہی ایک طاقت ور کامیاب تحریک چلائی تھی جس کے نتیجہ میں پاکستان کا قیام ممکن ہوا قوموں کی زندگی میں بہت کم ایسے مواقع آتے ہیں جب قومیں اپنی جدید بارآور اور ثمر آور قوتوں کو یکجا کرکے اپنی بنیاد ی آزادی کے حقوق ظالم و غاصب غیر ملکی حکمرانوں سے چھینے میں اُنہیں پل بھر کی بھی مہلت نہیں دیتے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کی تاریخ کے وہ ماہرین و دانشور زیادہ بہتر طو ر پر یہ بتانے کی پوزیشن میں کل بھی تھے آج بھی ہم اُن کی زندہ وجاوید تحریروں سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے لئے کی جانے والی بے مثال اور قابل صد آفرین جدوجہد کے صفِ اوّل کے مسلمانوں کے بے مثل لیڈر بانی ِٗ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بر صغیر میں یکایک اور یکدم قوموں اور ملکوں کی مروجہ شناخت کی تاریخ کا رخ تبدیل کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا، جس کامیاب کارنامہ پر اُن کے اُس وقت کے مخالفین اُن کی سیاسی ونظری بصیرت کے اب تک قائل ہیں تاریخِ عالم اِس امر کی شاہد ہے کہ دنیا کی کوئی قوم کسی نہ کسی نظریہ سے ضرور وابستہ رہی اور اُسی نظریہ کی بنیاد پر وہ قوم اگر آج دنیا میں کسی اہم منزل پر یا مقام پر فائز ہے تو مان لیجئے کہ ’نظریہ ‘ ہی وہ قوت ہوتا ہے جو قوموں کو ہر حالت میں نہ منتشر ہونے دیتا ہے نہ اقوام اپنے بنیادی نظرئیے سے منحرف ہوکر اپنے آپ کو اندرونی وبیرونی انتشار و خلفشار سے بچا سکتے ہیں23؍ماچ1940 کو مفکرِ پاکستان علامہ اقبال نے اپنے مشہورِ زمانہ خطبہ ِٗ آلہ آباد میں ’دو قومی نظریہ ‘ کی تجویز پر مطالبہ ِٗ پاکستان کی جو واشگاف اور ببانگِ دہل تاریخی صدا بلند کی وہ آخر کیوں دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی ؟ جنابِ والہ ! مان لیں کہ سیاست جدید ہو یا قدیم ‘سیاسی منطق کی رو سے اگر کسی انسانی گروہ کو ’ ایک قوم ‘ ثابت کردیا جائے، تو پھر اُسے خود بخود، اگر وہ قوم کسی غیر ملکی سامراجیت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، تو اُسے اپنے سیاسی وثقافتی خود ارادیت‘ یعنی اپنے سیاسی مستقبل کے تعین کا حق مل جاتا ہے، یہ جانا مانا ہوا سیاسی سائنس کا بنیادی کلیہ ہے، 23؍مارچ1940 کے بعد علامہ اقبال اور قائد اعظم نے اِسی اساسی جمہوری اُصول پر انگریزوں اور کانگریسیوں کو زچ کرکے رکھ دیا تھا، اور کیا یہ انگریز خود یہ نہیں جانتے تھے کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد امریکی صدر ولسن نے یہ ہی متذکرہ بالا سیاسی جمہوری اُصول اپنے مشہور نکات میں شامل کیا تھا جس پر تمام ممالک کے نمائندوں نے دستخط کرکے اپنی مہرِ تصدیق ثبت کردی تھی اب کسی کو کسی قسم کی سیاسی بدگمانی کی غلط فہمی میں نہ رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا درہے قومیں اجتماعی تجربوں کی یکسانیت سے بنتی ہیں بلکہ اِسی نوع کے نظریاتی تجر بہ کی بنیاد پر ’پاکستان اور نظریہ ِٗ پاکستان‘ کی تہذیبی اکائی کی جداگانہ اہمیت نے دنیا سے اپنے آپ کو منوا لیا ہے، اور انشاء اللہ یونہی منواتی رہے گی، بلکہ جیسے بھارت کے رہنے والے ہندوؤں کی اپنی جداگانہ اکائی ہے، 8؍ مارچ 1944 کو بانی ِٗ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ’ہندو مسلم جداگانہ تہذہبی اُصول کے کلیہ کی تعریف کرتے ہوئے اپنے خطاب میں یہ واضح کردیا تھا ’ ’پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا یہ اُس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ ِٗ توحید ہیے وطن نہیں اور نہ ہی نسل ‘ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا ‘ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد بن ہو گیا یوں ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی‘‘ آج جب ہم اپنی قومی آزادی کا دن پورے جوش وجذبے ‘ فخر وانبساط اور پورے احساساتی فکرو عمل کے اظہار سے منا رہے ہیں تو ہمیں یہاں پر یہ نکتہ ذرا بھر کو فراموش نہیں کرنا کہ پاکستان کے قیام کے بعد سب سے اہم اپنے ملک کو بحیثیتِ قوم جدید اقتصادی ومعاشی ترقی کے ہر ایک میدان میں جہاں سرخرو کرنا ہے وہاں اِس ملکِ خداداد پاکستان کی سلامتی و تحفظ کو بھی یقینی بنائے رکھنا ہے آجکل ہمارے ازلی دشمنوں نے اپنے چہروں پر مختلف نوع کے ماسک چڑھا لیئے ہیں،ہمیں اپنے مخلص دوستوں اور عیار ومکار دشمنوں میں تمیز کرنے کا عمل بڑی ہوشیاری سے جاری رکھنا ہوگا، جس طرح بانی ِٗ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اُس وقت کے نامی گرامی کانگریسی لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں سے
مرعوب نہ ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن کی بے تکی ‘لایعنی اور فضول قسم کی گفتگوؤں کو اُنہوں نے اپنے سگار کے دھوؤں میں اُڑا دیا اپنی پوری تو جہ اپنی پوری فکری ونظری یکسوی اور مکمل سیاسی وسفارتی سنجیدگی سے پاکستان کے قیام پر اورقیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے تحفظ وسلامتی پر لگائے رکھی، یہاں یہ سوال اپنی پوری سچائی سے اپنا جواب مانگتا ہے ’کیا ہم بحیثیتِ قوم اور ہمارے ہر دور کے قائدین ‘چاہے اُن کا تعلق سیاسی ہو یا وہ عسکری عہدِ حکومت سے متعلق ہوں اُنہوں نے بھی کبھی اپنا یہ طرزِ حکومت اپنایا ؟ بانی ِٗ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بے داغ اور پُر وقار شخصیت کا ایک نکھار یہ بھی تھا جس میں اُن کا ایمانی جذبہ نمایاں تھا، وہ ہمیشہ ڈسپلن اور پیشہ ورانہ مہارت کو ایمان دارانہ حب الوطنی سے نبھانے پر بڑا زور دیا کرتے تھے ، اِس برس 2015 کا 14 ؍ اگست ہمیں کل سے اور زیادہ آج اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے بارے میں فکرمند رہنے کی طرف ہماری توجہ مبذول کرارہا ہے، تاکہ ہم ایک ایسی قابل مستعد ‘ چوکنا اور ہوشیار قوم کے افراد کے سانچے میں ڈھل جائیں اور اگر ایسا ممکن ہو جائے تو پھر کوئی دشمن ہماری اندرونی وبیرونی سرحدوں کی طرف میلی آنکھ نہیں اُٹھا سکتا۔