دہشت گردوں کا مذہبی القابات کا استحصال اور علماء اور امام مسجدوں کی ذمہ داریاں
دہشت گردوں کا مذہبی القابات کا استحصال اور علماء اور امام مسجدوں کی ذمہ داریاں
(افتخارحسین)
“اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی شان میں علم و دانش کے بغیر جھگڑا کرتے ہیں اور ہر شیطانِ سرکش کی پیروی کرتے ہیں۔جس کے بارے میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ جو اسے دوست رکھے گا تو وہ اس کو گمراہ کردے گا اور دوزخ کے عذاب کا راستہ دکھائے گا”۔(سورۃ الحج آیت3،4)
آج جب دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے وابستہ کیا جاتا ہے تو ہم سبھی کےدل دکھتے ہیں دنیا بھر میں ایک غلط تاثر قائم ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت تشدد پسندانہ رویوں کو فروغ دیتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے اس صورتِ حال کے ذمہ دار دواُمور ہیں پہلا دہشت گرد گروہوں کا اسلام کے مقدس القابات اور خطابات کا استحصال اوردوسرا اس پر عالمِ اسلام کے علماء کی خاموشی ۔نتیجتاً اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جنھوں نے لادین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررکھی تھی وہ اسلام کے ٹھیکدار بن گئے اور مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کیا ۔جی ہاں القاعدہ کے یہ دونوں رہنماکسی مذہبی ادارے کے طالب علم نہ تھے اسامہ نے اقتصادیات کی ڈگری حاصل کررکھی تھی اور ظواہری ایک ماہرِ امراضِ چشم ہے ۔اسی طرح داعش کےسربراہ ابو بکر البغدادی کے پاس بھی اسلامی علوم کی کوئی بڑی سند نہیں ہےمگر ان سبھی دہشت گرد رہنماؤں نے جھوٹے پروپیگنڈے کے بل بوتے پر خود کو عام مسلمانوں کے سامنے بڑی مذہبی شخصیت کے طور پر پیش کیا اور ان کی ہمدردیاں سمیٹیں۔یقیناً یہ مسلہ بہت اہم ہے اور ہمارے علماء کو اس کا جلد از جلد ادراک کر کے مذہبی القابات کے اس استحصال کے خلاف شدومد کے ساتھ تحریک چلانی چاہیے۔اس مضمون میں ہم اجمالی طور پر کچھ مزید حقائق پیش کرتے ہیں تا کہ معاملے کی سنگینی اچھی طرح سے واضح ہوجائے۔
تمام انتہا پسند دہشت گرد گروہ ہمیشہ یہ پرچار کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے سچے پیروکار ہیں جبکہ اسکے برعکس اگر ان کی کاروائیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ ان کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔ مسلح فسادانگیزی، انسانی قتل و غارت، خودکش حملے، مساجد و مزارات پر حملے، تعلیمی اداروں کی تباہی، دفاعی تربیت کے مراکز پر حملے، نعشوں کی بے حرمتی ، عورتوں اوربچوں کا استحصال اور بے گناہ لوگوں کے سر قلم کرناوہ تمام کاروائیاں ہیں جو ان دہشت گردوں کی حقیقت عیاں کرنے کےلیے کافی ہیں۔ یہ دہشت گرد ان تمام کاروائیوں پر عمل پیرا ہیں جس سےمسلمان علماء کی بدنامی ہورہی ہے۔
یہ دہشت گرداپنے آپ کو مذہبی طور پرقابلِ احترام اور اسلامی شخصیت ظاہر کرنے کے لیے باقاعدہ اپنے ناموں سے پہلے مُولانا،مفتی،ملا،حافظ،قاری جیسے مقدس القابات کا استعمال کرتے ہیں۔مذہبی نقطہ نظر سے اسلامی معاشرے میں یہ القابات/خطابات بہت اہم ہیں اورجن اشخاص کے ناموں کے ساتھ یہ القابات لگے ہوتے ہیں ان کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد اپنے ناموں کے ساتھ ان القابات کا استعمال کرتے ہیں۔
داعش، القاعدہ اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کا بھی کوئی مذہبی پسِ منظر نہیں ہے بلکہ اپنی انسانیت سوز مجرمانہ کاروائیاں چھپانے کے لیے اس تنظیم کے کارندے بہت ڈھٹائی سے مذہبی القابات کو استعمال کر رہےہیں اس دہشت گرد تنظیم کے کارندوں اور سربراہان کی کوئی بنیادی مذہبی تعلیم نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی مذہبی رہنما/سکالر کو خاطر میں لاتے ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے میں اپنی ساری زندگی صرف کردی ۔تحریک طالبان میں چند ہی کارندے ایسے ہیں جنہوں نے درسِ نظامی مکمل کی ہوئی ہے۔اس تنظیم کا موجودہ سربراہ ملافضل اللہ صرف میڑک پاس ہے اور ایک دہشت گرد بننے سے پہلے وہ سوات میں لفٹ آپریٹرکے طور پر کام کرتا تھااور مُلا ریڈیو کے نام سے مشہور تھا وہ اپنے نام کے ساتھ مُلا لگاتاہے جو کہ سراسرغلط ہے کیونکہ اس نے بنیادی اسلامی تعلیم بھی مکمل نہیں کی ہوئی ۔اسی طرح جماعت الاحرار کا سربراہ عمر خراسانی صرف میٹرک پاس ہے اور وہ بھی لوہار کے طور پر کام کرتا رہاہے۔لشکرِاسلام کےکمانڈر نے بھی کوئی مذہبی تعلیم حاصل نہیں کررکھی بلکہ وہ ایک بس کنڈیکٹر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ تمام دہشت گرد گروہوں کی نہ تو کوئی مذہبی بنیاد ہے اور نہ ہی ان کے کارندوں کو اسلام کے بارے میں کوئی آگاہی ہے بلکہ یہ اسلام دشمن عناصر ہیں جو اپنی ضرورت کے تحت اسلامی تعلیمات کی بآسانی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرلیتے ہیں۔
خودکش حملے،مسجدوں اور امام بارگاہوں پر حملے،مزارات اور نعشوں کی بے حرمتی ،معصوم بچوں اور عورتوں کا دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ،بے گناہ اور نہتے انسانوں کوشہید کرنایہ تمام کاروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ان دہشت گردوں کے قول وفعل میں واضح تضاد ہے جو اپنے آپ کو اسلامی احکامات ماننے والے سچے مسلمان گردانتے ہیں لیکن ان کاہر عمل اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے جس کی روح سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں یہ مسلمان تو دور کی بات انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہیں۔ ان کی انسانیت سوز کاروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں اور پیسے کے لالچ میں اس ملک کو غیر مستحکم کرنے میں کوشاں ہیں۔مزید برآں یہ دہشت گرد اپنے سرغنہ لیڈر کو ناحق سراہتے ہیں اور جو سرغنہ اپنی زندگی میں جتنا ظالم تھا اور جس نے زیادہ معصوم لوگوں کا خون بہایا وہ ان ظالموں کے نزدیک اتنا ہی عظیم ہے۔
القاعدہ ،داعش اورطالبان کی قتل و غارت گری کو نہ تو جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جہاد کا ۔اسلامی پیروکار ہونے کا پرچار کرتے ہوئے ان ظالموں نے بہت سے معصوم لوگوں کے مذہبی لگا ؤ کا استحصال کیا ہے۔انھیں نفرت اور بدلے کی آگ میں جلا کر ان ظالموں نے نجانے اپنے کتنے ذاتی اور سیاسی مقاصد پورے کیے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ظالموں کے پیٹ کی آگ کسی طور ٹھنڈی ہوتی نہیں دکھائی دیتی ۔ یہ ظالم دہشت گردی کی کاروائیاں اتنے سفاک دیدہ دلیری سے کرتے ہیں کہ انسانیت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے۔ لیکن شاید یہ خوابِ غفلت میں ہیں کہ اب بھی یہ لوگوں کے مذہبی لگاؤ اور اسلام کے نام سے کھیل سکیں گے۔
اب ہر عالم پر ان کی حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ یہ ظالم صرف اور صرف ‘باغی’ اور خوارج ہیں جس کی مزید تشہیر کرنابھی علماء ہی کی ذمہ داری ہے۔ ان ظالموں کے لیے مُلا،عالم ،مفتی جیسے القابات استعمال کرنے کے بجائے’دہشت گرد’ اور’خوارج’ جیسے خطابات استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس ضمن میں سب سے اہم ذمہ داری امام مسجد پر عائد ہوتی ہے۔جمعہ کے خطبوں میں اور دیگر مذہبی تقریبات پر باقاعدہ ایک آگاہی مہم کا آغاز وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں ان دہشت گردوں کی حقیقت کو عیاں کیا جائے تا کہ ایک عام پاکستانی بھی انھیں صرف اورصرف خوارج،سفاک اور دہشت گردوں کےطور پر جانےجو کہ ان کی اصل حقیقت ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ علماء اس مضمون میں بیان کردہ حقائق کے مطالعے کے بعد مذہبی القابات کے اس استحصال کے خلاف پُر زور مہم چلائیں گے۔
[/urdu]