Posted date: January 31, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّدنا صررضا کاظمی
جمہوریہ ٗ ِاسلامی پاکستان کے متفقہ آئین کو مستقلاً للکارنے والے‘آئینی اداروں کے یہ منکرین‘عدلیہ کو ماننے سے انکاری‘ قانون نافذکرنے والی وفاقی وصوبائی انتظامیہ سمیت مسلح افواج کے لئے خطرناک چیلنج بنے دہشت گردگروہوں کے جتھوں کے جھتے‘جن میں ملکی سرکشوں کے علاوہ ازبک‘ افغانی‘ چیچن اور عرب نژاد دہشت گرد وں کی ایک بڑی اکثریت شامل ہے، جنہوں نے گزشتہ 6-7 برسوں کے دوران اپنی بہیمانہ سفاکیت‘ بے رحمانہ بربریت کے اندوہناک بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے نتیجے میں محتاط اندازے کے مطابق اب تک 50-55 ہزار کے قریب پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جبکہ المناک زخمیوں کی تعداد اِس سے کئی گنا دوگنی ہے اور ملکی معیشت تو کب کی دم توڑ چکی ہے،حکمرانوں کا جو Stuff آجکل ایوانوں میں براجمان ہے آج سے 7-8 ماہ قبل یہ ہی لوگ حزب ِ اختلاف میں تھے اُس وقت بھی ملک دہشت گردی کی ایسی ہی وحشت ناک صورتحال کاشکار تھا، تب یہ ’لوگ‘ اُس وقت کے حکمرانوں کو جو آجکل ’حزب ِ اختلاف‘ میں بیٹھے ہوئے ہیں اُنہیں متذکرہ بالا دہشت گردوں کی فی الفور سرکوبی نہ کرنے پر بڑی لعن طعن کیا کرتے تھے پارلیمنٹ کے دونوں معزز ایوانوں میں بڑی طویل بحثیں ہوا کرتی تھیں، آج کی حکومت کے وزراء کی اکثریت دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کے ماتم کی آہ وبکا ء میں وہ پچھلی حکومت کو بڑا سخت و سست کہتے تھے یہ سب کی سب جماعتیں ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اِن جماعتوں کے سیاسی مال و متاع کا حساب و کتاب رکھا جاتا ہے نجانے اور کیا پوچھاجاتا ہوگا؟یہاں سوال یہ ہے کہ وہ ایسی اتھارٹی کون سی ہے جو اِن سے یہ پوچھے کہ ’اِن بڑی سیاسی جماعتیں کے پاس کیا کوئی’شیڈو کابینہ‘ ہوتی ہے یا نہیں؟ ایسے ’تھنک ٹینکس‘ ہوتے ہیں جو عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آنے کے بعد قومی شعبوں کو درپیش اہم اور حساس نوعیت کے نازک معاملات سے بخوبی نمٹنے میں فوری طور پر معین و معاون ثابت ہوسکیں؟ ملکی امن امان کا مسئلہ کئی برسوں سے یونہی روز بروز تشویش ناک چلا آرہا ہے، اِس میں کمی آنا تو رہا درکنار‘ پاکستانی شہری علاقوں میں امن امان کے حوالے سے طلو ع ہونے والی ہر نئی صبح تباہیوں کا ایک نیا سامان لیئے جلوہ فگن ہو تی ہے اِس کا احساس مسلم لیگ ’ن‘ کی اعلیٰ قیادت کو قبل از وقت ہو نا چاہیئے تھا،یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو پھر اور کیا ہے مسلم لیگ ’ن‘ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اِس جماعت کے قائدین چونکہ ’تجارتی شعبہ‘ سے براہ ِ راست وابستہ رہے ہیں آج بھی ہیں اِس جماعت کو حکومت ملنے کے بعد عوام کی اکثریت کو یہ امید ہوتی ہے کہ اِن کے دور ِ حکومت میں ملکی معیست کا پہیہ یقینا خوب رواں دواں ہو جائے گا،جناب ِ والہ! ملک کے صنعتی شہروں میں اگر بم دھماکے نہیں ہونگے‘ خود کش حملے نہیں ہونگے، صنعتی شہروں کا امن وامان بحال نہیں ہوگا عوام عدم تحفظ کا شکار نہیں ہونگے مقامی پولیس دہشت گردوں سے جنگ کرنے کی بجائے عوام کے جان ومان کی حفاظت کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ہمہ وقت’جت‘ جائے گی مگر ایسا ہوگا کب؟ جب ملکی معاشرہ حقیقی امن کا گہوارہ بن جائے گا؟؟ اب یہی ہیں ہمارے خواب! ملکی معیشت کا کیا رونا ملک بھر کا شہری امن وامان ہی غارت ہو چکا ہے تو پھر کیسا کاروبار اور کیسی تجارتی سرگرمیاں؟
گزشتہ حکومت نے دہشت گردی کے عفریت کو قابوکرنے میں کتنی کوتاہی برتی یہ شکوہ اُس وقت بجا ہو تا جب اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی آپ کی سیاسی جماعت کا پہلے سے مرتب کردہ وہ شہری امن منصوبہ جو ملک بھر کے امن امان کے انتہائی گھمبیر تا سے نمٹنے کے لئے آپ اپنے ساتھ لا ئے ہوتے اور یک لخت فی الفور اپنے اِس امن پلان کو بیک جنبش ِ قلم‘ بغیر صلاح ومشورے کے اور تشہیر کیئے بغیر ملک بھر میں لاگو کردیتے راتوں رات وزیر اعظم پاکستان کے حکم پر ملکی سول اور عسکری سیکورٹی ادارے ملکی آئین کی بحالی کے لئے ثابت قدم و متحرک ہوجاتے ملک بھر میں دیکھتے ہی دیکھتے امن وامان قائم ہوجاتا یا نہیں؟ آئین کی رٹ کو‘ قانون کی حاکمیت کو نافذ کرنے کے لئے نہ کسی پارلیمنٹ سے توثیق کی ضرورت ہوتی ہے نہ عدلیہ سے آنے والے کسی فیصلہ کا انتظار، آئین بھی ملک میں موجود اور جہاں تک قانون کے نفاذ کا تعلق ہے وہ کسی بھی تھانیدار سے لے کر کسی چوراہے پر کھڑے ہوئے عام پولیس کانسٹیبل پوچھ لیں سب کو بخوبی معلوم ہے، صرف ملک کے پولیس سسٹم کو ’سیاسی اثرورسوخ‘ سے آزاد کردیا جائے پولیس سسٹم کے مالی انفراسٹریکچر کو خود مختار کردیں پولیس فورسنز کو مسلح افواج کی سطح پر قومی اعتماد مل جائے تو نہ صرف ملک بھرکے کسی علاقے کے کسی ایک شہر ی کے پاس بھی کوئی ایک بھی غیر لائسنس یافتہ ہتھیار نہیں رہے گا بلکہ ملک بھر کے کسی ایک علاقے کے کسی ایک محلہ سے کسی ایک فائر کی آواز بھی نہیں آئے گی جب ہم اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم اور‘ ملک بھی ایسا جو ایٹمی ڈیٹرنس کا حامل ملک ہے یہاں اِس لاحاصل بحث ومباحثے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کس کے حکم پر ایٹمی دھماکے ہوئے ہیں
مگر آج ہمیں ہمارا یہ ہی وزیر عظم گومگو اور تذبذب کی غیر یقینی صورتحال کی تصویر بنا نظرآتا ہے ”کبھی مذاکرات کر نے کا حامی‘اور ’کبھی ریاستی رٹ کو طاقت سے قائم کرنے‘جیسے بیانات د یتا دکھائی دیتا ہے ’کنفیوژڈ‘ اور ذہنی ونظری انتشار میں مبتلا حکمرانوں کی ’قابل ِ رحم‘ یہ دیدنی حالت دیکھ کر ملکی عوام کے اُن متاثرین پر کیا گزرتی ہوگی جن کے پیاروں کو خود کش دھماکوں کے سانحات نے کھا لیا وہ معصوم عورتیں جن کے شیر خوار اور جواں سال بچوں کو معصوم بہنوں کے بھائیوں کوبزرگوں کے بوڑھاپے کے سہاروں کو معصوم بچوں کے والدین‘ اسکول جانے والے طلباء و طالبات کو‘عام کاروباری لوگوں کو بازاروں میں خریداری کرنے والے عام افراد کو یہی کیا کم ہے مسجدوں کے نمازیوں کو‘ امام بارگاہوں کو‘ بزرگان ِ دین کے مزارات کو‘ چرچوں کو غرض یہ کہ عام انسانوں کو اپنی خودغرضانہ دہشت گردی کاہدف بناکر ایک انتہائی کریہہ اور مکروہ کھیل اپنایا ہوا ہے جسے اسلام اور شریعت کا نام دے کر مزید اپنے لئے گناہوں پر گناہوں کا بوجھ لادھا جارہا ہے، خود ہی دیکھ لیں، قرآن ِ مجید میں سورہ ٗ ِ البقرہ کی آئیہ مبارکہ 204 اور205 کا ترجمہ ”کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر پر اللہ کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے اور جب پیٹھ پھیر کرچلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے اکہ اس میں فتنہ انگیزی کرئے اور کھیتی کو برباد اور نسل کو نابود کرئے اور اللہ تعالیٰ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا“دہشت گردہ گرہوں کی آبیاری کی شکل میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی یہ ہے وہ فتنہ انگیزی‘ وہ ظلم وستم کا متکبر دہشت گرد‘ جس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں حکومت ِ وقت نے اُنہیں اپنے باطل قوتوں کو مجتمع کرنے کی غلطی کردی ہے یہ’مذاکرات کامیاب ہوں‘ ہم دعاگو ہیں۔