دینی مدارس میں انتہا پسند عناصر اور ان کا تدارک
وطن عزیز کے طول وعرض میں قائم دینی مدارس قرآن و حدیث کی تعلیم وتدریس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ دینی ادارے اسلام کے امن و سلامتی کے پیغام کو فروغ دینے کا مرکز تصور کیے جاتے ہیں جن سے ہزاروں طلباء فیضیاب ہو کردینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ افغانستان میں سویت یونین کے حملے کے بعد ان دینی مدارس میں سے چند ایک میں افغان جہاد کے لیے جہادی تربیت کا سلسلہ شروع کیا گیا اور جہادیوں نے اپنے ہم خیال مدارس کی مدد سے مجاہدین تیار کر کے افغانستان بھجوانا شروع کیے ۔ تب سے ان دینی مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔9/11 کے واقعے کے بعد ان مدارس کا کردار ایک بار پھر مشکوک سمجھا جانے لگا۔ انتہا پسندانہ نظریات کے حامی مدارس میں موجود نام نہاد مولوی حضرات نے پیسوں کے لالچ میں انتہا پرستی کو فروغ دیا اور دہشت گردوں کے مقاصد کو کامیاب بنانے میں اُن کی مدد کرتے رہے۔
بین الاقوامی میڈیا بہت عرصے سے یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے اور اس ضمن میں مداراس انتہا پسند دہشت گرد تیار کر نے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی غلط نظریے کو سچ ثابت کرنے کے لیے چند مدارس کے منتظمین اور انتہا پسند عناصر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ یہ گنتی کے چند مدارس ہیں جو اپنے بنیادی مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر دہشتگرد گروہوں سے مالی مفاد کے لالچ میں اسلام کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں اور معصوم طلباءکو انتہاپسند جنونی گروہ کے حوالے کر کے باقاعدہ معاوضہ لیتے ہیں ۔ انھیں اسلامی تعلیمات اس طرح لیکچرز کی صورت میں دی جاتی ہیں کہ یہ معصوم بچے انتہا پسندی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ پھر انھیں انتہا پسند گروہوں کے حوالے کیا جاتا ہے تو وہاں ان سادہ لوح نوجوانوں کو ویڈیو فلمیں دکھا کر اور جذباتی لیکچرز دیکر تخریب کاری کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسکے بعد انھیں باقاعدہ ٹرینگ دے کر ایک خودکش حملہ اور دہشت گرد بنا دیا جاتا ہے۔ان بچوں کے والدین بھی اس قدر سادہ لوح ہوتے ہیں کہ وہ کسی قسم کی جانچ پڑتال کیے بغیر اپنے بچے ایسے معلمین کے سپرد کر دیتے ہیں جو کہ خفیہ طور پر القاعدہ کے نیٹ ورک سے مربوط ہوتے ہیں ۔ اب یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہو چکی ہے کہ طالبان کے نیٹ ورک سے مربوط مدارس کے منتظمین اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر اسلام اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔اس لیےوالدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ مکمل جانچ پڑتال کے بعد اپنے بچوں کو مدارس میں حصولِ تعلیم کے لیے بھیجیں اور ان کی نصابی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھیں تا کہ مدارس میں موجود کوئی بھی ملک دشمن عناصر ہمارے بچوں کو ملک و قوم کے خلاف نہ استعمال کر سکیں۔دینی مدارس اور اسلامی فلاحی اداروں کی مالی معاونت کرنا نہ صرف ایک اسلامی فریضہ ہے بلکہ یہ ایک بہت اہم خدمت بھی ہے مگر جہاد کے نام پر دہشتگردوں کی مدد کے لیے چندہ اکٹھا کرنا ان دینی مدارس کے اپنے وقار کے منافی ہے ۔اس لیے مخیر حضرات کو چاہئے کہ وُہ اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے ایسے دینی مدارس اور مساجد کے منتظمین کو چندہ دیں جو اسلام کے آفاقی اُصولوں کے مطابق معاشرتی امن و سلامتی کے لیے کوشاں ہوں ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں موجود ۱۰۰۴۳ مدارس میں سے صرف ۸۰۰۰مدارس وزاتِ تعلیم کے تحت رجسٹر ڈ ہیں۔ جبکہ باقی مدارس کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مدارس میں جدید علوم جیسے انگریزی، ریاضی، کمپیوٹر اور سائنس جیسے جدید مضامین بھی متعارف کروائے جا رہے ہیں ۔ طالب علموں کو نصاب اور جدید علوم کی کتب کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے انعامات اور مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کے لیے باقاعدہ اجرت فراہم کی جا رہی ہے یہ تما م مراعات اس لیے دی جارہی ہیں تا کہ کوئی بھی مدرسہ کسی بھی قسم کی انتہا پسندی یا دہشت گردی کی ترغیب دینے میں ملوث نظر آیا تو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جا سکے۔ مدارس کی رجسٹریشن اور اس میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تبدیلی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مدارس میں دہشت گردی کی ترغیب دینے کی باتیں سوائے ایک منفی پراپیگنڈے کے اور کچھ نہیں ہیں۔ مدارس کے نصاب میں تبدیلی اور جدید سائنسی علوم کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت تھی جسے حکومتِ وقت بہت احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ جدید تعلیم سے آراستہ ہو کر مدارس کے طالب علم دینی و دنیاوی میدان میں ترقی کی منازل طے کر سکیں گے اور پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث بنیں گے۔ مدارس کبھی بھی دہشت گردی کی ترغیب دینے والے ادارے نہیں رہے۔
گنتی کے چند مدارس کے دہشتگرد تنظیموں کیساتھ مراسم کی وجہ سے دوسرے دینی مدارس کا وقار بھی مجروح ہو تا ہے جو کہ اسلام دشمن عناصر کے مکروہ عزم کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں ۔دانشمندی کا تقاضا ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ،طلباء اور وطن عزیز کے تمام مذہبی قائدین انسان اور انسانیت سے محبت کرنے کے اسلام کے آفاقی پیغام اور عالمگیر درس کو اپنی زندگی کا اصول بنائیں اورا ن دینی مدارس کے منتظمین کی اصلاح کریں جو دہشتگردوں اور فرقہ پرستوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔اسلام دشمن مغربی میڈیا کو بھی ہمارے دینی مدارس کو بدنام کرنے کے مواقع انہی دہشتگردوں نے مہیا کیے جو کہ اپنے شیطانی کھیل کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی اور رسوائی کا باعث بنے ہوئے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان کے مسلمان بلکہ پوری اُمت مسلمہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جو کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات دینے والے مدارس کے منتظمین کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہئے ۔