سانحہ کوئٹہ: دہشت گردوں کی بربریت کا منہ بولتا ثبوت

quid residency(ایس اکبر)

گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نےپوری قوم کو مسلسل ایک امتحان  کی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسی ظلم و بربریت کی پاداش میں 15 جون 2013 کو بلوچستان کا دارلحکومت کوئٹہ  دھماکوں سے لرز اٹھا جس میں ڈپٹی  کمشنر کوئٹہ عبدالمنصور کاکڑ، 14 طالبات ، 4 سکیورٹی اہلکاروں اور 4 نرسوں سمیت کم از کم 30 افراد    جان بحق ہو گئے۔ دھماکوں میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت30 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔         سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات پر حملہ در اصل قوم کی پڑھی لکھی نسل پر حملہ ہے اور ان  توقعات پر حملہ ہے جو پاکستان کو اس نئی نسل سے وابستہ ہیں۔ان طالبات کی بس پر خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے۔ طالبات کی بس پر حملہ کرنے والی ایک خاتون خودکش بمبار تھی جس نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔ جس کے نتیجے میں 4 طالبات موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی جبکہ 30 سے زائد زخمی ہو ئی۔ان  زخمی طالبات کو  بولان میڈیکل کمپلیکس میں  طبی امداد فراہم کی جا رہی تھی کہ شبعہ حادثات میں ایک اور دھماکہ ہو گیا۔ جس کےنتیجے میں مزید کئی لوگ جاں بحق ہو گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ زیارت میں قائداعظم کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا گیا جو دراصل پاکستان کی تاریخ پر حملہ ہے۔ اس حملے میں قائد اعظم کی قیام گاہ مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور یہاں موجود قائد اعظم کے زیر استعمال تاریخی اشیاء بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔ قائد اعظم ریزیڈینسی پرحملے کی ذمہ داری بلوچ لیبریشن آرمی نے قبول کر لی ہے ۔ حملہ آوروں نے قائداعظم کی قیام گاہ پر موجود پاکستانی پرچم کو اتار کر بلوچستان لبریشن آرمی کا جھنڈا لہرایا۔ بلوچستان میں ملک دشمن عناصر کی ایماء پر کئی قومیت پرست تحریکیں متحرک ہیں جن کی کاروائیوں میں الیکشن کے بعد مزید تیزی آ گئی ہے۔ یہ تحریکیں علحیدگی پسند ہیں اور غدارِ وطن ہیں اور کسی طور نہیں  چاہتی کہ نئی آنے والی حکومت بلوچ قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے اقدامات کرے۔

        دہشت گردی کی ان سفاکانہ کاروائیوں پرپوری قوم اشکبار ہے جبکہ عوام میں گھناؤنی دہشت گردی کی ان کاروائیوں  کی وجہ سےاضطراب اور سراسمیگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ بانی  پاکستان قائد اعظم کی رہائش گاہ پر حملے سے قومیت پرست تنظیموں کی حقیقت  عیاں ہو گئی ہے جس سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و استحکام نہیں چاہتے اوروہ پاکستان کی ریاست اور بانی پاکستان کو عملاً تسلیم نہیں کرتے۔ جبکہ ان حملوں سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں بہت سے ملک دشمن عوامل کار فرما ہیں جو پیسوں کا لالچ دے کر یہاں کے معصوم نوجوانوں کو اپنے گھناؤنے کھیل میں استعمال کر رہے ہیں ۔ بلوچستان پاکستان کا ایک اہم  صو بہ  ہے اور ہر آنے والی حکومت نے اس قوم میں پائے جانے والے اختلافات اور نفرت کے جذبات کی تصیح کرنے کے لیے بروقت  اقدامات کیے ہیں۔مزید برآں  پاکستانی فوج کی اس ضمن میں کیے گئے تمام اقدامات  بھی قابلِ ستائش ہیں۔

        طالبات پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دہشت گرد عناصر پڑی لکھی بلوچ  نسل کے دشمن ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ یہ نئی نسل پڑھ لکھ کر پاکستان کی اور خاص طور پر بلوچستان کی ترقی میں ہاتھ بٹا سکیں۔ ان دہشت گردوں کا پاکستان کے استحکام اور پاکستانیوں کے چین و سکون سے کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ تو صرف پیسوں کے لالچ میں قیامت برپا کرنے کے درپے ہیں۔ دین اسلام میں بے گناہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا خون بہانے کی سخت ممانعت ہے بلکہ اس دین میں تو جنگ کے دوران بھی ایسا لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونے کی تلقین ہے جس میں عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں پر حملے کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ نہتی معصوم طالبات پر حملہ کرنے والے پاکستان کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ جو انسان کے روپ میں شیطان ہیں اور اپنی بربریت کے لیے کسی کا بھی خون بہانے سے گریز نہیں کرتے۔ ان نہتی طالبات پر حملہ اور قائداعظم کی رہائش گاہ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے بزدل انسان ہیں جو چھپ کر نہتے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں ۔ یہ شیطان اللہ کے شدید غیض و غضب کے مستحق ہیں۔ان دہشت گردی کے کاروائیوں کے جواب میں کامیاب عسکری کاروائی کر کے سیکورٹی فورسز نےتمام دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا جبکہ ایک دہشت گرد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سکیورٹی فورسز ان ظالم دہشت گردوں کے خلاف ہمت اور حوصلے سے برسرِ پیکار ہے اور اپنے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔

        ہمیں من حیث القوم ان تمام دہشت گردوں کا سیسہ پلائی ہو ئی دیوار کی مانند مقابلہ کرنا ہو گا تا کہ  ان عسکریت پسندوں اورقومیت پرستوں کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ تمام مکاتبِ فکر کو اتحاد و اتفاق سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ عسکریت پسند عناصر غیر ملکی ایجنٹوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

 

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top