Posted date: February 27, 2014In: Urdu Section|comment : 0
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی سیّد ناصررضا کاظمی
ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کسی بھی عظیم مقصد کا تعین کیئے بغیر کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے نہ اپنی قومی شناخت کے وجود کو منوا سکتی ہے، قوموں کا ضمیر ہی سویا ہوا ہو ‘ روح نام کی کوئی چیز اُس قوم کے نوجوانوں میں نظر نہ آتی ہو بس جان لیں ایسی قومیں زیادہ دیر تک ا پنے پیروں پر کھڑی نہیں رہ سکتیں آسان لفظوں میں اِس نکتہ کو اگر ہم یوں سمجھیں کہ قوم ایک ’آرکسٹرا‘ کی مانند ہوتی ہے یعنی اگر موسیقار نااہل ہو ،سازندوں کے ساز ہم آھنگ نہ ہوں ، ہر سازندہ اپنی ڈفلی الگ الگ بجا رہا ہوتو ظاہر ہے کہ ایک بے ہنگم اورسمع خراش شور ہی اُبھرے گا نا؟ جی جناب ! انتہائی دکھ کامقام یہ ہے کہ آج ہماری قوم کا من جملہ ایسا ہی حال ہے جبکہ ماضی کیسا رہا؟ اِس حال کو اگر اِسی بدحالی کی گمراہی کے راستے پر جانے سے روکنے کی فوری ‘ہنگامی اور کوئی بامعنی، ٹھوس اور موثر کوشش نہیں کی گئی تو پھر قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ لکھنے والوں پر ہماری آئندہ نسلوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اُن پر کسی قسم کا کوئی متعصبانہ الزام عائد کر تے پھریں‘ اُنہیں ایسا نتیجہ اخذ کرنے سے قبل یہ جاننا پڑے گا کہ اُن کے آباء و اد سے یقیناًکوئی بڑی فاش غلطیاں سرزد ضرور ہوئی ہونگی؟ ایک بار نہیں، کئی بار‘ پاکستانی نوجوانوں نے گزری کئی دہائیوں میں دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے یہ حقائق منوائے ، یہاں پر کس کس پاکستانی نوجوان کانا م لیا جائے اِن عالمی شہرت یافتہ ملکی نوجوانوں کی یہ نمایاں کامیابیاں مختلف تعلیمی قابلیت کے میدانوں میں اُن کی ’انفرادی ‘ صلاحیتیوں کے سبب سامنے آئیں، جنہیں وہ بروئےِ کار لائے تسلیم شدہ عالمی با صلاحیت صفوں میں اُنہوں نے اپنے لئے جگہ بنائی، بہت سے نام ہیں، انگلیوں پر گننے نہیں جاسکتے پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ہمہ وقت قومی عروج وزوال کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے ’عروج ‘کو بھول جاتے ہیں اور ’ زوال ‘ کا نوحہ زیادہ پڑھتے ہیں‘ واقعی، یہ مقام قابلِ غور وفکر ہے‘ہماری سماجی ومعاشرتی زبوں حالی کی خستہ جڑیں کہیں ہمارے نامکمل اور کئی نوع کے تقسیم شدہ تعلیمی نظام میں الجھی معلوم ہوتی ہیں، کہیں پر ہمارے ساتھ یہ ظلم ہورہا ہے کہ ہمیں ایک جدید سائنسی تعلیم یافتہ انسان بنانے کی بجائے ہمیں مذہب کے نام پر ،کبھی فرقہ واریت کے نام پر اور کبھی سماج کے طبقاتی مفادات کے حوالے مسلسل ’کنفیوژ‘ کیا جا تارہا ہے مختصراً مطلب یہ کہ یہاں کسی پر الزام دینا مقصود نہیں ، گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی سیاست کئی قسم کی آلودگیوں کی بیماری میں مبتلا رہی ہے اور یہ بات اپنی جگہ صحیح ! کہ ملکی سیاست کو چلانے والوں نے مستقلاً چاہے وہ فوجی اصلاح پسند طالع آزماجنرل ہوں یا جمہوریت کے ذریعہ اقتدار کے حصول کے متمنی سیاست دان ؟سب ہی نے نجانے کیوں ‘ جان بوجھ کر ملکی تعلیمی سسٹم کو نیک نیتی کے پُرخلوص جذبوں کو بروئےِ کار لاکر اُسے صحیح راہ پر لگانے کے لئے کوئی بامقصد خدمات انجام نہیں دیں، یہاں یہ تسلیم کیئے بناء بھی بات نہیں بننے گی کہ پاکستان کو بحیثیت ایک فلاحی ریاست، مثالی ترقی یافتہ ریاست ‘ صنعتی طور پر خوشحال اور دفاعی اعتبار سے ناقابلِ تسخیر خطہِ ارضی بنانے کاکام صرف حکومت ہی کا فرض اور ترجیح نہیں ہے ملک میں موجود تمام کے تمام طبقات کو اپنا اپنا کردار کتنی سچائی و ذ مہ داری کے ساتھ بھرپور اور موثر طریقہ سے ادا کرنا تھا؟ اِس بارے میں رتی برابر کام نہیں ہو ا ‘لکھا ور بولا بہت زیادہ گیا ،
جس کانتیجہ بہت بھیانک نکلا نوجوان جو کسی بھی قوم کی ترقی وخوشحالی کا سرمائیہ ہوتے ہیں وہ کم مائیگی کا شکا ر ہوگئے دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ پندرہ برسوں میں ملک شدید توانائی کے بھیانک بحران میں دھنستا چلا گیا، امراء طبقات کو کوئی فرق نہیں پڑا ،مگر وائے افسوس! درمیانی اور نچلے طبقہ کے کم عمر نواجونوں کے جھنڈ کے جھنڈ کچرے کی مانند پورے ملک میں تتر بتر ہوگئے جن کے والدین روزمرہ کی روٹی کے چکر میں پھنس گئے، پاکستان ڈیمو گرافکس پروفائلز 2013 کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک کے تقریباً ساڑھے چار کروڑ نوجوان ایسے ہیں جو کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں روزگار چاہیئے ؟ توانائی کے ناقابلِ بیان تشویش حالات کے شکار ملک پاکستان میں نوجوانوں کی اتنی بڑی کثیر تعداد کو سرکاری شعبہ سے کیا روز گار ملے گا نجی شعبہ غیر متحرک و غیر فعال اِتنی کثیر نوجوان تعداد کو کیسے کھپا پائے گا؟ایسے میں کہاں جا ئے ملک کا یہ قیمتی سرمائیہ ؟ سابقہ فوجی حکمران یاسابقہ سیاسی حکمرانوں سمیت کسی موجودہ سیاسی حکمرانوں کے پاس اِس انتہائی اہم سوال کا کوئی جواب آپ کو نہیں ملے گا ، ڈارونیت کے موت کے یہ پجاری، کیا جانیں؟ علم کی گہری سوچ بچار کس چڑیا کا نام ہے قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ’لاعلمی کی وکالت ‘ کرنے والوں سے کیسے یہ توقع کی جائے کہ وہ ملک کے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور آراستہ کرکے ‘ اُنہیں ہنر مندی کی جدید تعلیم سے بہر مند کرکے اِس ملک کی قسمت بدل سکیں گے ؟ معاشرے میں جہالت اور لاعلمی کے سائے چھا تے چلے جارہے ہیں قدم قدم پر افلاس ‘ انتہائی پسندی ‘ بددیانتی ‘ بے صبری ‘ عدم برداشت ‘ تخریب کاری ‘ توہم پرستی ‘ جھوٹ ‘ خود غرضی اور دہشت گردی کی انانیت کے بت نصب ؟ ایسے گہرے ژولیدہ فکر معاشرے میں کسی نہ کسی کو آگے بڑھ کر یہ سبق اب نہیں تو کبھی نہ کبھی تو دینا ہی پڑے گا کہ ائے نوجوانو! منافقت کے سانچے میں ڈھلے اِن خود غرض ‘نام نہاد جمہوریت پسندوں کے چہروں سے نقاب کھیچ لو اور انصاف‘سچائی ‘ دیانت داری ‘ مضبوط قوتِ ارادی اور بہادری کے پختہ عزمِ صمیم کے جذبوں سے خود کو لیس کرکے علامہ اقبال کے اِس حیات آفریں پیغام کو اپنا ٹارگٹ بناؤ جس پیغام کے جذبوں سے خود بخود پاکستانی نوجوانوں کے اندر اپنے ملک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے کچھ نہ کچھ کرگزرنے کی جستجو نمایاں ہونا شروع ہوجائے گی یہاں ہمیں خود یہ یاد رکھنا ہوگا اور ہمارے ملکی میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا کے ذمہ دار پاکستانیوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ پاکستان کو باقی رکھنے کے لئے پانچ کروڑ پاکستانی نوجوانوں کو ہر قیمت پر تعلیمی شعور کی آگہی سے روشناس کرا نے میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے ہمیں پاکستان دشمن عالمی وعلاقائی قوتوں کے اِس لیبل کو بھی اتار پھیکنا ہے ’کہ ہم بحثیتِ قوم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں‘ نہیں بالکل نہیں، قومی سوالات کی سنگینیوں اور قومی مسائل سے بھری ہماری زندگیوں سے ہمیں یہ سبق مل چکا ہے ہم نے اب حوصلہ بالکل نہیں ہارنا، ملک کے مایوس کن حالات سے ہم بالکل نہیں گھبرائے ہیں زندگی کے مسائل سے جراّت مندی کے ساتھ مقابلہ کرنا پاکستانی جوانوں کا پختہ عزم ہے جمہوریت آج نہیں تو کل یقیناًبہادر ‘ باصلاحیت اور جراّت مندی قیادت کے خلاء کو ضرور پُر کرئے گی۔
’’نہیں ہے نا ا میّد اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘۔