کراچی کو اگر پاکستان کا دل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، یہ پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں آپ کو بیک وقت اردوبولنے والے، پنجابی ، سندھی ، پٹھان ، بلوچی کشمیری، گلگتی، بلتی ہر ایک نظر آئے گا اور شہر کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ بھی لے رہا ہوگا یہ اس شہرکا خاصہ ہے اور اس پر اللہ کی رحمت ہے کہ یہ دینے والا ہاتھ ہے۔ یہاں ہر ایک کو اپنا روز گار میّسر ہے اور سب کے رزق کا بھی اللہ نے یہاں بندوبست کیا ہوا ہے ۔ اس شہر کی اسی فراخدلی کا مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں نے خوب فائدہ بھی اٹھایا اور یہاں اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ بھی پہنایا، ان میں اندرونی اور بیرونی ہر طرح کے مجرم شامل ہیں۔ کراچی روشنیوں کے شہر سے مجرموں ، ڈاکوؤں ، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز سٹریٹ جرائم میں ملوث لوگوں اور قاتلوں کا شہر بن گیا،گلیاں، سڑکیں، گھر، بازار ،سکول اور مساجد سب کچھ غیر محفوظ ہوگئے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہونے دیا جاتا رہا، سیاسی جماعتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں، اپنے اقتدار کے لیے سر گرداں رہیں، اپنے مسلح گروہ ترتیب دیتی رہیں اورمفادات کی جنگ چلتی رہی۔ زبان، نسل ، علاقہ، صو بہ سب کچھ اہم رہا غیر اہم تھا تو پاکستان حالانکہ بظاہر سب حب الوطنی کا دعویٰ بھی کرتے رہے۔ ایسے میں حکومتوں نے بھی وہ کردار ادا نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھااگر چہ چھوٹے موٹے آپریشن بھی ہوتے رہے اور دوبارتو بڑے آپریشن بھی ہوئے، ناسور کا وقتی علاج بھی ہوتا رہا معاملہ کچھ دن تو دب جاتا تھا پھر حالات وہی پرآجاتے تھے۔ 1992 سے 1994 پھر 1996 مختلف ادوار میں یہ آپریشن چلتے رہے لیکن ان کے اختتام پر کچھ عرصے کے سکون کے بعد پھر وہی نا معلوم افراد دوبارہ زندہ ہو جاتے تھے اور ٹارگٹ کلنگ شروع ہو جاتی تھی بھتہ پھر زور و شور سے وصول کرنا شروع ہو جاتا تھا۔ حالات میںآئی تبدیلی واپس بلکہ یہ پہلے سے بڑھ کر خراب ہو جاتے تھے۔