Posted date: January 24, 2015In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پشاور میں سانحہ ہوا طالبان نے ذمہ داری قبول کی، وزیرداخلہ نے بھی اعلان کیا کہ تمام خود کش پاکستانی تھے ماسٹر مائنڈ بھی پاکستانی تھا یہ بھی کہا گیا کہ کسی بیرونی ہاتھ کے شواہد نہیں ملے وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں اپنی جگہ بالکل درست ہوں گی لیکن بیرونی ہاتھ کو معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت خارج کیا گیا اگر ملا فضل اللہ افغانستان میں بیٹھا ہے تو اُسے یقینا کسی کی حمایت اور مدد حاصل ہے اور اسی مدد کے بل بوتے پر وہ محفوظ ٹھکانے پر بیٹھ کر اپنا کام پورا کر رہا ہے۔ بے شک کہ وہ پاکستانی ہے لیکن استعمال وہ بطور غیر ملکی مہرے کے ہی ہو رہا ہے اور اب کی بار تو اس حقیقت کا اظہار امریکہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ جان کیری نے بھارت کے حالیہ دورے کے دوران بھارت سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور ملا فضل اللہ سے اس کے روابط کے ثبوت پیش کیے۔ امریکہ نے خود بھی اس حقیقت کا ادراک کرنے میں برسوں لگا دیے اور ان برسوں میں ہزاروں پاکستانی اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ پاکستان کہتا رہا کہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ ہے اور وہ یہ کام مختلف اطراف سے کر رہا ہے نہ صرف پاکستان سے جڑی سرحدوں سے دہشت گرد داخل کر رہا ہے بلکہ افغانستان میں بھی اُسے خاصے سازگار حالات میسر آئے۔ اُس نے یہاں غیر معمولی اور غیر ضروری تعداد میں اپنے قونصل خانے کھولے جس پر پاکستان اعتراض کرتا رہا لیکن عالمی طاقتوں نے کبھی اس بات کو اہمیت نہ دی یا تو وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں یا پاکستان کے خلاف ایک بہت اچھا ساتھی کھونا نہیں چاہتی تھیں جو پاکستان کے خلاف کوئی بھی کام کرنے کو نہ صرف ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ یہ اُس کی قومی پالیسی کا حصہ ہے کہ پاکستان کو ہر صورت نقصان پہنچایا جائے اور مودی سرکارکا تو یہ انتخابی نعرہ اور منشور بھی تھا اور اپنی نیت کا ثبوت وہ مسلسل دے رہا ہے۔ دسمبر میں پشاور سکول میں بچوں کے قتل عام پر اُس نے افسوس بھی کیا، اسمبلیوں میں بھی دکھ کا اظہار کیا گیا، خاموشی بھی اختیار کی گئی اورسکول کے بچوں کے سیشن بھی کرائے گئے۔ سب کچھ ہوا لیکن جب پاکستان اس انتہائی دکھ اور افسوس سے گزر رہا تھا بلکہ پوری دنیا میں اس کی گونج سنائی دے رہی تھی اس وقت اس واقعے کے صرف پندرہ دن بعد اُس نے ہماری سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی کیا افسوس اور دکھ کے اظہار کا یہ بھی کوئی طریقہ تھا جو بھارت نے اپنایا۔ بھارت اس سے پہلے بھی اور مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے اور اس کے ثبوت مسلسل ملتے بھی رہے اور دنیا کو بتائے بھی گئے لیکن ان کو اہمیت نہ دی گئی۔ فوج کئی بار بھارت ساختہ اسلحہ پکڑتی بھی رہی ہے اور دکھاتی بھی رہی ہے جسے بین الاقوامی قوتوں نے ہمیشہ نظر انداز ہی کیا لیکن اس بار اوبامہ کے دورۂ بھارت سے پہلے جان کیری نے بھارت کو جو آئینہ دکھایا ہے بھارت اسے جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کا نتیجہ قرار دے رہا ہے اگر ایسا ہے تو بھی یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ امریکہ نے اجیت کمار دیوول کے پشاور سکول حملے کے لیے ملافضل اللہ کو رقم فراہم کرنے پر بھی بھارت کوآڑے ہاتھوں لیا۔اجیت کمار اس وقت بھارتی وزیراعظم مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔ یاد رہے کہ اجیت کمار وہ شخص ہے جو پاکستان، چین اور سری لنکا میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے اور جو کسی غیر ہندو کو جینے کا حق نہیں دیتا یہی سے بھارت حکومت کی امن کے لیے سنجیدگی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے اور یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ امریکہ،بھارت اور طا لبان کے تعلقات کے بارے میں جانتاتھا اور ان کے درمیان رابطہ کاریعنی اجیت دیوول سے بھی اچھی طرح باخبر تھا تو پھر کیوں نہ بروقت بھارت کو اس کام سے روکا گیا اور اس کی کیوں نہ شنوائی کی گئی کیا بھارت اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کے سہولت کار تھے۔امریکہ نے ملا فضل اللہ سے کسی بھی امریکی کے تعلق رکھنے پر پابندی بھی عائد کی اس کے اثاثے منجمد کرنے کا بھی اعلان کیا اور اُسے عالمی دہشت گرد بھی قرار دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک ملا فضل اللہ سے امریکیوں کے تعلقات تھے اور اس کے اکاونٹس آخر کس نوعیت کے اور امریکہ میں کہاں کہاں تھے جو منجمد کیے گئے کیا یہ کوئی امدادی اکاونٹ تھے اور کیا یہ امداد امریکہ کی طرف سے تھی یا بھارت کی طرف سے لیکن استعمال اگر امریکی بینک ہو رہے تھے تو کیا پہلے امریکہ بے خبر تھا یا افغانستان سے جاتے جاتے اُسے یہ خیال آیا۔ بہر حال جو بھی ہے امریکہ کو بھارت پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا ہوگا اور پاکستان کو امریکہ سے اپنا یہ مطالبہ پر زور طریقے سے نہ صرف کرنا ہوگا بلکہ دہراتے رہنا ہوگا کیونکہ اب ہم نہ مزید دہشت گردی برداشت کر سکتے ہیں اور نہ مزید جانیں قربان کر سکتے ہیں۔حکومت کو نمبر سکورنگ کے لیے بھارت دوستی کا راگ الاپنے کی بجائے سنجیدگی سے اپنے مسائل حل کرنا ہونگے اور بھارت کا افغانستان میں کردار محدود کرنے پر زور دینا ہوگا۔ بھارت افغانستان میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں جو تربیتی کیمپ چلا رہا ہے اُسے ختم کروانے کے لیے بھی عالمی برادری کو آگے آنا ہوگا اور خاص کر امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔”را“کا ایک نکاتی ایجنڈا یعنی”پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرو“کا بھی توڑ کرنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نے بھارت کے ساتھ دو ٹوک انداز اور سخت لہجے میں بات کی ہے لیکن اس موقف کو سیکریٹری آف سٹیٹ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ صدر اوباما کو بھی بھارتی دورے کے دوران اس موضوع پر نہ صرف بات کرنی چاہیے بلکہ بھارت سرکار کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اِن کاروائیوں کو روکے اور پاکستان کو بھی بھارتی مداخلت کے جو شواہد اور ٹھوس ثبوت ملے ہیں انہیں بھر پور طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ بھارت کا اصل چہرہ سب کے سامنے آسکے۔