سبّی دھماکا: بلوچ علیحدگی ۔پسندوں کی بلوچ قوم پر مظالم
سبّی دھماکا: بلوچ علیحدگی ۔پسندوں کی بلوچ قوم پر مظالم
جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دھماکے کے منظر نے ہر کسی کو دہلا کر رکھ دیا۔ یو نائٹیڈ بلوچ آرمی نے سبّی ریلوے سٹیشن پر یہ حملہ کیا جس میں 17 لوگ ہلاک ہو گئے جن میں 6 عورتیں اور 4 بچے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس حملے میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد ہلاک ہو گئے۔ تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیم بھی ان دنوں اس واقعے سے لرز گئی اور انھوں نے اس کی شدید مذمّت کی ہے۔یہ سانحہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے بلوچ عوام پر مظالم کا ایک نیا باب ہے جو بلوچستا ن لیبریشن آرمی، بلوچ ریپبلیکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ظلم و ستم کا مسلسل نشانہ ہیں۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں نام تو بلوچ قومیت کا استعمال کر رہی ہیں اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کے ذریعے سے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ بھی ملا رکھاہے۔ مگر دنیا بھر کے صحافی یہ جانتے ہیں کہ در حقیقت یہی لوگ اور تنظیمیں نہ صرف بلوچوں کی پسماندگی اور غربت کی ذمہ دار ہیں بلکہ بلوچ قوم اور عوام پر ہونے والے مظالم میں بھی انہی کا ہاتھ کارفرما ہے۔ ان تنظیموں کے سربراہ اور علیحدگی پسند ملک اور سردار بلوچ عوام کو تقسیم کر کے اپنے اقتدار کو طول دئے ہوئے ہیں۔ یہ رہنما بلوچوں کے خون اور پسینے کی کمائی پر خود طرح طرح کے جواز پیدا کر کر کے عیاشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جو صحافی بلوچ سرداروں اور ان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے سربراہوں سے ملتے رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پر تعائش زندگی گزارنے والا یہ گروہ بلوچ عوام سے ذرا بھی ہمدردی نہیں رکھتا۔ یورپ کے ممالک میں شاہانہ آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے یہ سردار بلوچستان کے مسائل سے صحیح طور پر آگاہی ہی نہیں رکھتے تو انہیں حل کرنے کی کیا کوشش کریں گے۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی پر نظر رکھنے والے اداروں کی رپورٹ کےمطابق علیحدگی پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں زیادہ تر بلوچ ہی مارے جاتے ہیں۔ با خبر حلقوں کےمطابق بلوچ عوام دہرے شکنجے میں کَسے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ مجبور ہیں کہ ان دہشت گردوں کا ساتھ قومیت کے نام پر دیں اور دوسری طرف یہ بلوچ عوام حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ان علیحدگی پسند دہشت گردوں کی بلوچ عوام سے دشمنی بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے بعد مکمل طور پر کھل کر سامنے آئی۔ حکومت اور فوج فوری طور پر حرکت میں آئے اور عوام کو ہر ممکن امداد فراہم کی۔ مگر بلوچ دہشت گردوں کو یہ بات ذرا بھی نہیں بھائی اور انہوں نے اس مہم کی شدید مخالفت کی اور اسے روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ لہذا انھوں نے حکومت اور فوج کے امدادی قافلوں پر حملے شروع کر دیئے۔ بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظلم بلوچ پر ہو سکتا تھا کہ جب وہ آفت میں پھنسے ہوئے تھے تو دہشت گرد ان کی امداد کے سبھی ذریعے کو منقطع کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس سے بڑھ کر انہوں نےمصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کے بچوں کو اپنے برے عزائم کے لئے اغوا بھی کیا جس کی داستانیں ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں سامنے آئیں۔اس غیر انسانی روش کو اختیار کرنے والے بلوچ قوم اور عوام کے کس طرح ہمدرد ہو سکتے ہیں؟ حکومت فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس صورت حال سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچ عوام کی حالت کو بہتر کیا جائے اور اس زمین میں بہت سے ترقیاتی منصوبوں پر عمل ہو رہا ہے۔ آغاز حقوق بلوچستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےاس کے ساتھ ساتھ حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ بلوچ سرداروں اور علیحدگی پسنددہشت گرد تنظیموں کے سربراہوں کو مذاکرات کی راہ پر لایاجائے تاکہ عوام ان کی پر تشدد کاروائیوں سے محفوظ رہیں۔ فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والےاداروں کی کوشش ہے کہ علیحدگی پسند دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکا جائے اور معصوم عوام کو نشانہ بنانے والے اپنے کیفروکردار کو پہنچیں ۔ حکومت اور فوج کے یہ اقدامات بلوچ عوام اور ملک بھر کی امن و سلامتی کے لئے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان کی مکمل حمایت کریں اور فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں تاکہ جعفر ایکسپریس جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو پائے۔