سرکش عالمی میڈیا کی لگامیں۔۔ کھینچنے کا وقت !!

power of media44                سیّد ناصررضا کاظمی

ذرائعِ  ابلاغ یا پروپیگنڈے کی تعریف میں خصوصاً یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ دوسروں پر اپنے سازشی پروپیگنڈے کے ذریعہ قابوپانا‘ تاکہ اُن کے فکری و نظری طرزِ  عمل اور اُس کے خلاف اپنے یکطرفہ معاندانہ سلوک کو کوئی تشہیری فکری قوت تبدیل نہ کرسکے اور نہ ہی ٹارگٹ فریق کے ’ٹارگیٹیڈعقائد ونظریات‘ کا دفاع کرنے کا اُسے کوئی موقع تک میسر آسکے اِسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سازشی پروپیگنڈے کی تھیوری کو عملی جامہ پہنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مخالف فریق دوسرے فریق کو نشانہ بنا ئے اپنی تنقید وتنقیص کی زد پر لیئے‘ اُسے بدنام کرنے ‘اُس کی شہرت کو داغدار کرنے کی نیت سے متواتر اور بلا روک ٹوک اپنے مذموم پروپیگنڈے کے سلسلہ کو جاری رکھے ایک اور حوالہ یہ کہ پروپیگنڈے میں یکطرفہ متعین افکارو خیالات کو اِس طرح سے پھیلا یا جا تا ہے کہ پروپیگنڈے سے متاثرہ فریق کی کہیں پر نہ کوئی بات سنی جا ئے ‘ نہ اُس کے طرزِ  عمل کو کوئی پر کھ سکے اور نہ اُس کی آراء کی بازگشت کہیں بھی سنی جاسکے ‘ پروپیگنڈے کا یہ موضوع خاصا بحث طلب ہے، مختصراً ہمارا نکتہ ِٗ  نظر اتنا ہے کہ بحیثیتِ  قوم اپنی آزادی کے بعد سے تاحال ہم ایک مضبوط و توانا پاکستانی قوم کے اپنی شناخت کو اور اپنے قومی وقار کو دنیا بھر میں اہم مقام کیوں نہیں دلوا سکے؟ ہم اپنی مضبوط و توانا آواز کی گونج کو دنیا بھر میں پھیلانے میں ناکام رہے وجوہات بیان کی جائیں یا کسی سے طلب کی جائیں تو اِس کے لئے علیحدہ ایک اور دفتر چاہیئے، کس کس وجوہ کی تفصیلا ت جا نیئے گا ؟ عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والا پاکستانی بھی جانتا ہے پاکستانی قوم کو بے بسی ‘ لاوارثی ‘ مجبوری اور مظلومیت کے اِس انتہائی مقام تک پہنچانے میں چاہے فوجی حکمران ہوں یا جمہوری حکمران‘ سب نے اپنا اپنا قابل مذمت اور قابلِ  گرفت مذموم حصہ ڈالا ضرور ہے، اپنی اِس اہم قومی ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھنے کا اُن کے پاس وقت ہی کہاں تھا ؟جبکہ رہی سہی کسر ہمارے ہاں آئے روز کی پنپنے والی مذہبی‘ لسانی ‘ اور صوبائی فرقہ واریت نے اور پوری کردی، ابتدا میں بات شروع کی گئی ذرائعِ  ابلاغ کے پروپیگنڈے کی تعریف سے ‘ کل سے زیادہ ہمارے پاس آج تیزرفتار‘چکاچوند ذرائعِ  ابلاغ کے پُرکشش میڈیم اپنی سراپا موجودگی کا اظہار کرتے   ہمیں ہر روز نظر آتے ہیں، کیا اِن کے فرائض میں یہ نکات شامل نہیں ‘، وہ قطعِ  نظر اپنی آراء کے قومی وحدت و اتحاد کے بنیادی موضوعات کو اپنے پرائم ٹائم پروگراموں میں کلیدی اہمیت د ینے سے پہلوتہی کے کیوں برتے ہیں؟ نجانے ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ تقریباً سبھی نجی چینلز کے مالکان اور اِن چینلز کے اینکر پرسنز ( روز نیوز چینل اور روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے علاوہ)پاکستان کی نظریاتی عوامل ومحرکات کی موثر تاریخ سے یکسر منکر‘  پاکستان مخالف عالمی اسٹیک ہولڈرز کے پروپیگنڈوں سے مرعوب‘ بلکہ اپنی اندرونی مفاداتی حرص و ہوش کی خواہشات کے تابعِ  فرمان میڈیا کی ’ایکٹر نما ‘ یہ چند شخصیات ’خالص پاکستانی حکمتِ  عملیوں‘ کو نمایاں اور اُنہیں کمال ہنر مندی سے اجاگر کرنے کی بجائے غیروں کے تابعِ  فرمان بنے اپنی قومیت کا سودا کرنے میں وہ ذرا بھی بوجھ محسوس نہیں کرتے؟ اُنہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ ’استعمال ‘ ہورہے ہیں ؟اِسے حالاتِ  حاضرہ کا جبر کہیںیا کوئی اور نام دیں ایک طرف ہمارے مغرب میں انڈیا جو ہمارے وطنی وجود کو ماننے سے انکاری تو دوسری جانب مشرق میں افغانستان ،جہاں دنیا بھر کے چنیدہ چنیدہ بدقماش جاسوسوں کے جھتے سفارتی لبادوں میں چھپے ریاستی سرپرستی میں ہمہ وقت اپنی معاندانہ کارگزار یوں کا محور پاکستان کو بنائے رکھنے میں مصروفِ  عمل ہیں ملکی میڈیا میں اِس پر سیر حاصل بات کرنے کی کسی میں ہمت کیوں نہیں ہوتی؟ نمبر ایک سے غالباً 20 نمبر تک آنے والے نجی ٹی وی ٹاک شو زمیں سے بیشتر ٹاک شوز غیر حقیقی افکاروخیالات کے شوپیس ‘ مطلب یہ کہ کیا صرف ایک دوسرے پر سیاسی مخالفتوں کی دھینگا مشتی ہی باقی رہ گئی ہے ملکی ناظرین کے لئے ‘ جن میں چند ایک قسم کے سیاسی شرکاء کو اینکرپرسنز اپنے ٹاک شوز میں مدعو کرتے ہیں، جس موضوع پر باہم گفتگو ہوتی ہے کیا یہ ’کرنٹ ایشوز‘ ہیں یا نہیں ؟ چالیس پینتالیس منٹ کے پروگرام میں اینکر پرسن کو اشارہ ملتا ہے کہ ’پروگرام کو ذرا اور گرم کرو‘ تو اینکر پرسن شرکائےِ  پروگرام کو باہم طیش زدہ کرکے اُنہیں’ تپا‘ دیتا ہے، یہ ہی تماشا رہ گیا ہے قوم کی اکثریت کے پاس کہ وہ تھک ہار کر جب گھر آئیں تو ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے قائدین کو ایک دوسرے پر سیاسی دھوکہ دہی ‘ کرپشن ‘ وفاداریاں بدلنے ‘ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے جیسے تھرڈ کلاس ‘ ٹی وی ٹاک شو دیکھیں؟ ایک سروئے میں علم ہوا ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت اب سیاسی ٹاک شوز دیکھنے کی بجائے ٹی وی ڈرامے دیکھنے کو زیادہ ترجیح دینے لگی ہے صرف چھ سات سال میں تقریباً سبھی ٹی وی ٹاک شوز اپنی ’طبیعی ‘ عمر مکمل کرکے ناظرین کی نظروں سے گر گئے، نااہلیت اور فنی صلاحیتوں سے بالکل عاری ‘سطحی عامیانہ پن کے نخوت و تکبر میں مبتلا ملکی الیکٹرونک میڈیا کی اِس آزادی سے قوم کو کیا حاصل ہوا؟سوشل میڈیا پر دسترس رکھنے والے احساسِ  برتری کے زعم کے نشہ میں بدمست ایلیٹ کلاس کے طبقے کے امراء اور مڈل کلاس والے احساسِ  کمتری میں مبتلا طبقہ کی با ت کریں تو مزید یہ احساس ہمیں اور ہم جیسے کئی اوروں کو ’احساسِ  زیاں ‘ سے دوچار کیئے دیتا ہے کہ’ قوم کہاں ہے؟ قوم کی سوچ کیا ہے؟ قوم کی کوئی سمت ہے یا نہیں؟کیا من جملہ پوری قوم ازلی دشمنوں کے نرغے میں گھرگئی ہے قو م کا اگر حال یہ ہے تو پھر قومی اداروں کا حال کیا ہوگا؟ بڑی بد نصیبی کامقام ہے چند روز پیشتر قومی اسمبلی کے رکن جمشید دستی نے (فی الحال تحقیقات تک) جو انکشاف کیا ہے جس سے پوری پارلیمنٹ ’آئینِ  پاکستان‘ کے دیبابچہ کے دوسرے پیراگراف کی رو سے ’آئین ‘ کو اب جوابدہ ہو گی ہے، دنیا بھر میں ہم مذاق  بن گئے ؟ اگر ملکی نجی میڈیا پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ بننے والے عالمی سرکش گھوڑوں کی لگامیں تھامنے سے انکار کردے ملکی جغرافیائی وحدت کے اصل نظرئیے کا عَلم اُٹھا لے تو یقیناًمیڈیا میں یہ طاقت وقوت ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا پاکستان کا بال بیکا نہیں کرسکتا، ہاں مگر یہ سچ ہے کہ تھر کے سینکڑوں بچوں کی بھوک سے ہلاکت اور تھر میں وارد ہونے والے اچانک تشویش ناک قحط کی خبریں نجی میڈیا نے حکمرانوں تک پہنچا ئیں تو حکمرانوں کو ہوش آیا ؟ کاش ملکی میڈیا کو یہ بھی علم ہوتا کہ ’تھر ‘ اور ’ڈیپلو‘ میں گزشتہ 30-35 برسوں سے پاک مسلح افواج کے ’بریگیڈ‘ کی سطح کا فوجی ہیڈ کوارٹر موجود ہے، صحرائے تھر کی طویل سرحد چونکہ انڈیا کے ساتھ ہے یہی وجوہ ہے کہ وہاں پاک فوج کے دستے ہمہ وقت موجود و چوکس رہتے ہیں یہ ایسا مقام ہے جہاں شائد ہی کوئی پہنچتا ہو؟ مگر ‘ ملکی فوج وہاں پر موجود کئی برسوں سے تھر کے جفاکش و محنتی عوام کی آواز پر لبیک کہنے میں دیر نہیں لگاتی اِس بار بھی پاک فوج نے ایک دن کا راشن تھر کے عوام کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے کاش وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر تھر کے مصیبت زدہ عوام کے لئے فوراً میدانِ  عمل میں اترنے والی ملکی ا فواج کے جذبوں کی بے مثال خدمت سے بھی ملکی عوام کو آگاہ کر نے کی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو الیکٹرونک میڈیا کے وہ حلقے بھی یہ ذمہ داری اُسی لگن سے نبھا تے جیسے وہ پاکستانی فوج پر بے جا کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے!!
.

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top