سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسندانہ نظریات کی تشہیرایک لمحہ فکریہ

ایس اکبرPakistan media

گزشتہ کئی سالوں سے دنیا بھر میں دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام کو دہشت گردی کی ترغیب دینے والا مذہب کہتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام درحقیقت امن و سلامتی کا مذہب ہے جو ظلم و جبر کی صریحاً مذمت کرتا ہے لیکن صد افسوس کہ چند دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث کا غلط استعمال کر رہی ہیں اور اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو جہاد کا نام دے کر مسلم نوجوانوں کی مذہبی و ابستگی کا ناجائز فائدہ اُٹھانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گرد ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنانے کے لیے سرگرمِ عمل رہتے ہیں تا کہ وہ ان نوجوانوں کو اپنا آلہ کار بنا کر غیر انسانی اور غیر اسلامی کاروائیاں سر انجام دے سکیں اور اس کے لیے وہ سب سے زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔

دہشت گرد تنظیمیں اپنے کارندوں کی تعداد میں اضافے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کر تی ہیں جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ انٹرنیٹ ہے جس کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے میں لوگوں تک رسائی حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ پچھلے چند سالوں سے دہشت گرد تنظیمیں انٹرنیٹ پر جہادی ویب سائٹ کے ذریعے اپنا پروپیگنڈا لوگوں تک پہنچانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ لوگوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے دہشت گردوں کو اس بات کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کم وقت اور کوشش سے دنیا بھر کے لوگوں تک اپنے انتہا پسند نظریات پہنچا سکتے ہیں۔یہاں تک کہ اس مقصد کے لیے مختلف تنظمیوں نے باقاعدہ اپنی ویب سائٹ بنائی ہوئی ہیں۔ اپنا پروپیگنڈا مواد کو میگزین کی صورت میں شائع کرنےکا ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیاہے کالعدم تنظیم القاعدہ باقاعدگی سےاپنے ماہانہ میگزین ‘انسپائر’ اور ‘اذان’ میگزین شائع کررہی ہے۔اس کے علاوہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم داعش کے میگزین ‘دابِک’ کا ایڈیشن بھی بآسانی سوشل میڈیا پر دستیاب ہوتا ہے۔یہاں تک کہ تحریک طالبان کے گروہ جماعت الاحرار کا بھی اشتعال انگیز مواد ‘احیائے خلافت’ میگزین کی صورت میں سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستانی نوجوانوں کو بہکانے کے لیے ایک معروف سوشل نیٹ ورک Face Book پر “عمر میڈیا” کے نام سے کمیونٹی تشکیل دے رکھی ہے۔ جس میں تحریکِ طالبان نے نوجوانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس ویب سائٹ کے لیے بطور لکھاری یا ایڈیٹر کام کریں۔ ویب سائٹ پر مسلمان نوجوانوں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کریں اور پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی معاونت کریں ۔

قبائلی علاقوں میں کامیاب عسکری آپریشن کے بعد تحریکِ طالبان زبوں حالی کا شکار ہے اور اس کو نئے افراد کی بھرتی میں شدید دقت کا سامنا ہے کیونکہ ان کی حقیقت سب پر عیا ں ہوچکی ہے۔ کارکنان کی عدم دستیابی نے دراصل تحریکِ طالبان کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ مذہبی وابستگی رکھنے والے افراد کو ورغلانے کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرئے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کے لیے دہشت گردوں نے انٹرنیٹ پر مختلف ویڈیوز، ترانے اور آڈیو تقاریر اپ لوڈ کر رکھی ہیں جن میں حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد موجود ہوتا ہے۔ ان میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے نظریات کے خلاف بھی انتہائی اشتعال انگیزی پائی جاتی ہے اور کفرو شرک کے جھوٹے فتاویٰ اور منافرت پیدا کرنے والی تعلیمات موجود ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ یہ تنظیمیں اپنی دہشت گردانہ کاروائی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کردیتے ہیں جس میں یہ ان کاروائیوں کے بارے میں ایسے ایسے من گھڑت فتاوٰی اور دلائل دیتے ہیں کہ ہر ذی ہوش اسے منطقی طور پر سچ گرداننے پر مجبورہو جاتا ہے ۔سوشل میڈیا پر ‘داعش’ کی جانب سے ظلم و زیادتی سے بھرپور ایسی بے شمار ویڈیوز موجود ہیں جن میں سے بیشتر میں یہ دہشت گرد گروہ بہت بے رحمی سے معصوم لوگوں کو غیرملکی جاسوس قراردے کر ان کا سر قلم کردیتا ہے حال ہی میں ایک ویڈیو میں ملک اردن سے تعلق رکھنے والے ایک پائلٹ کو زندہ جلاتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔یہ تو صرف ایک ویڈیو کی مثال ہے نا جانے اس طرح کی کتنی ویڈیوز آئے دن سوشل میڈیا پر جاری ہوتی رہتی ہیں۔

دہشت گرد تنظیموں کےسوشل میڈیا پر جاری ہتھکنڈوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر نا ہمارے معاشرے کے تمام افراد کے لیے بے حد ضروری ہے بالخصوص والدین اور اساتذہ کرام بچوں اور نوجوانوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روکنے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے بچے جو والدین کی عدم توجہی کا شکار ہوں نسبتاً آسانی سے انتہا پسندی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ لٰہذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پرپوری توجہ دیں ان کی دلچسپیوں، مشاغل اور روزمرہ کی سرگرمیوں سے باخبر رہیں تا کہ کہیں دہشت گرد تنظیموں کے آلہ کار ان بچوں کو ورغلا کر اپنے جال میں نہ پھنسا لیں۔ اس کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ ٹی وی اورکمپیوٹرز بچوں کے کمروں میں رکھنے کی بجائے ٹی وی لاؤنج میں رکھیں تا کہ وہ اس بات سے آگاہ رہیں کہ ان کے بچے کیا دیکھ رہے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کرام بچوں کو اسلامی تعلیمات کی اصل روح سے روشناس کروائیں تا کہ وہ کسی طور دہشت گردوں کے نظریہ جہاد سے مرعوب نہ ہو سکیں۔

علاوہ ازیں علماء ِ کرام کو وقتاً فوقتاً دہشت گردوں کے انتہا پسندانہ نظریات کی مخالفت میں فتاویٰ جاری کرتے رہنا چاہیے تا کہ تحریک طالبان اور دوسری تنظیمیں مجاہدین کا لبادہ اوڑھ کر اس ملک کے نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر باقاعدہ آگاہی مہم کا آغاز ہونا چاہیے تا کہ یہ ظالم معصوم لوگوں کے ذہن کو زنگ آلود نہ کر سکیں۔معاشرے کے تمام افراد اور اداروں کا دہشت گردی کے خلاف پختہ عزم ہی امن کے قیام کا ضامن ہے۔ مزیدبرآں میڈیا لوگوں میں دہشت گردوں کے ہتھکنڈوں کے خلاف آگاہی پیدا کرنے میں نہایت ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر پروگرام اور اخبارات و رسائل میں مضامین اور خبروں کے ذریعے اسلام میں جہاد کے اصل معنی و مفہوم کو عام فہم بنایا جا سکتا ہے تاکہ دہشت گر اپنی کاروائیوں کی اسلام کے ساتھ منسوب نہ کر سکیں۔

[/urdu]

Leave a Comment

© 2012 - All Rights are reserved by zameer36.

Scroll to top