سونیا گاندھی کی نیو یارک آمد اور سکھوں کا بھولا ہوا دکھ
نغمہ حبیب
طالبان سے مذاکرات کی پیشکش اور کوشش کے بعد پشاور تین بار دل دہلا دینے والے خونی دھماکوں سے لرز کر رہ گیا آہ و بکا اور چیخ و پکار سے ہر پاکستانی کا دل دہل کر رہ گیا لیکن اس بار ہوا یہ کہ ہر دہشت گرد واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان نے بھی ان واقعات پر غم و غصے کا اظہار کیا اور ان دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا تو پھر کون یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی اس خفیہ ہاتھ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اب یہ خفیہ ہاتھ بظاہر تو بیرونی ہے تو یہ بیرونی دشمن کون ہے ہمیں دہشت گردی کا گڑھ قرار دینے والے کیا اس ہاتھ کی نشاندہی کر سکیں گے ۔ بھارت خود دہشت گردی کا سب سے بڑا سپوٹر ہے اورپاکستانیوں کے لیے تو بھارت کا یہ کردار اور چہرہ کوئی نیا نہیں مشرقی پاکستان میں اس کا کردار تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ دوسرے ملکوں میں دراندازی تو خیر ایک عام بات ہے وہ اپنے ملک میں رہنے والی اقلیتوں کو جس عذاب میں مبتلاء رکھتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔مسلمان تو اکثر اوقات ان کے نشانے پر رہتے ہیں کبھی انفرادی طور اور کبھی اجتماعی قتلِ عام کا نشانہ بنتے ہیں اور قاتل کھلے عام پھرتے ہیں بلکہ قومی لیڈر بن جاتے ہیں۔ بال ٹھاکر ے اور نریندر مودی جس طرح دندناتے پھرتے ہیں وہی بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنے کو کافی ہے ۔ ایک سلمان خورشید تمام ہندی مسلمانوں کا چہرہ نہیں اور مسلمان ہی کیا سکھ تو اپنا وہ غم آج تک نہیں بھولے جب اُن کے مقدس گولڈن ٹیمپل کو بھارتی فوج نے بوٹوں تلے روندا تھا اور ان کی نسل کشی کی تھی نہ ان کے مرد بچے تھے نہ عورتیں ، نہ بوڑھے نہ جوان اور نہ ہی بچے ان کو چن چن کر مارا گیا۔ سکھ دوست تو معلوم نہیں کیسا ہوگا لیکن بقول ایک پاکستانی فوجی افسر دلیر اور ظالم دشمن ضرور ہے اور یہی وجہ تھی کہ علاج کے لیے امریکہ پہنچی ہوئی سونیا گاندھی کو انہوں نے معاف نہیں کیا اور اُسے یاد دلایا کہ راجیو کی ماں نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور خود سونیا اندرا کی محبت میں تو ہر گز نہیں لیکن سیاست بازی میں ضرور سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور بات صرف منہ زبانی نہیں کی بلکہ 3 ستمبر 2013 کو امریکہ کی فیڈرل کورٹ سے اُسے سمن جاری کروایا گیا جو اس واقعے کے انتیس سال بعد ہوا لیکن بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو یاد کروا دیا گیا وہی چہرہ جو کشمیر میں کشمیریوں کے قتل کے وقت ہوتا ہے یہ وہ سکھ تھے جو اس قتل عام کے وقت بچ نکلے تھے ۔ یہی حال کشمیریوں کا بھی ہے اور نکسلائٹس کا بھی ان کی نسلوں کی نسلیں حالت جنگ میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی اور نئی نسل کا دکھ پرانی نسل سے بڑھ کر ہوتا ہے کہ پرانی نسل نے کچھ تو اچھے دن دیکھے ہونگے اپنے وطن اپنی زمین کی شیرینی محسوس کی ہوگی نئی نسل کے حصے میں تو پرائی ہوا اورپرایا پانی ہوتا ہے لیکن اپنے آزاد وطن کی خواہش سب کی ہوتی ہے اور وہ بھی جب ان کی نہ عزت محفوظ ہو نہ گھر اور سب سے بڑھ کر دین اور مذہب کا غیر محفوظ ہونا انسان کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کبھی احتجاج، کبھی دہشت گردی ،کبھی بغاوت اور کبھی آزادی کا مطالبہ ۔ بھارت سمجھتا رہا کہ سکھ شاید 1984 کو بھول چکے ہیں لیکن یہ چنگاری ایک دفعہ پھر ایک ہلکی سی لودکھا گئی اور سونیا گاندھی کی نیو یارک آمد پر سکھوں کو اپنا بھولا ہوا دکھ یاد آگیا ۔ بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ کسی اقلیتی مذہب اور برادری سے کسی ایک شخص کو صدر ، وزیراعظم یا وزیر خارجہ یا کوئی اور وزیر بنا کر اُس نے اُس اقلیت کا حق ادا کر دیا یا اُسے مطمئن کر دیا تو ایسا ہوتا نہیں ہے ورنہ تو کشمیر ی آج اپنی آزادی کی تحریک ختم کر چکے ہوتے یا یہ چند ایک سکھ سہی منموہن سنگھ کو وزیراعظم دیکھ کرسونیا گاندھی سے اپنی تاریخ کا حساب نہ مانگتے۔ دوسروں کے گھر میں اور معاملات میں مداخلت کرتے کرتے ’’عظیم جمہوریت‘‘ یہ بھول جاتی ہے کہ اُسے اپنے لوگوں اور اپنی اقلیتوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ دوسروں پر دہشت گردی اور مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے اگر اپنے گریبان میں جھانک لے تو اُسے خون کے کئی دھبے نظر آئیں گے جس میں کوئی مسلمان ، کوئی سکھ کوئی بنگالی کوئی نکسل باڑی کوئی پاکستانی اور کوئی سری لنکن ہوگا جہاں اُس نے اپنے خون کی پیاس بجھائی ہے۔ ٍ بھارت اگر خطے میں سکون چاہتا ہے جس کا وہ پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو اُسے اپنے رویے اور کردار میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی ناکہ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے امن پیدا ہوگا اور اگر وہ اپنے گھر پر توجہ دے تو پڑوسی بھی سکون میں رہیں گے اور بھارتی عوام بھی لیکن شاید بھارت سرکار کے لیے ایسا کرنا خاصا مشکل ہوگا۔