Posted date: November 12, 2013In: Urdu Section|comment : 0
Terrorists Commander
سیّد نا صررضا کاظمی
ہم ہرگزہمت نہ ہاریں گے ہماری کوششیں جاری رہیں گی اپنے وطنِ عزیز کو ظالم وسفاک دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کی شکار گاہ نہیں بننے دیں گے پاکستان کے ازلی دشمنوں کی ایماپر افغانستان میں پھلنے پھولنے والے دہشت گر د گروہ اپنے غیر انسانی عزائم سے بحیثیتِ قوم ہمیں صرف مارنا ہی نہیں چاہتے زندہ درگور کرنے کے خواہش مند ہیں، ملکی امن وامان کو تہس نہس کرکے پاکستانی قوم کو تباہی وبربادی کے غاروں کے منہ پر لاکھڑا کرنے کی یہ تیاریاں ہیں، کل تک دہشت گردوں سے امن مذاکرات کی باتیں قوم نے سنیں ‘ فی الحال قوم کو علم نہیں ہے ’ملا فضل اللہ ‘جیسا ظالم و سفاک شخص ‘جو کالعدم TTP کا اب سربراہ بن چکا ہے کیا اب بھی ایسے آئین شکنوں سے مذاکرات کیئے جائیں گے ؟ قوم کو کوئی غرض نہیں‘ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والا حکیم اللہ محسود ملکی سیاست دانوں کی نظروں میں ’اچھا ‘تھا یا بُرا ؟‘ قوم صرف یہ جانتی ہے اُس کے ہاتھ ہزاروں پاکستانی عوام‘ افواجِ پاکستان سمیت ملکی سیکورٹی اداروں کے جوانوں اور پولیس کے بے شمار جوان وافسروں کے خون سے لتھڑے ہوئے تھے بحرحال وہ اپنے انجام کو پہنچا، کیا فرماتے ہیں اب ‘ وہ قائدین ‘ جو TTP سے ’امن ‘ مذاکرات کے طرفدار حمائتی بنے ہوئے ہیں، جبکہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کالعدم TTP کی پگڑی ملا فضل اللہ نے پہن لی ہے ’ملا ریڈیو‘ کے ہاتھوں پر ’ بیعت‘ بھی ہوچکی اب باقی پیچھے کیا رہا؟ ‘
ملا فضل اللہ کے گزشتہ بے رحمانہ و ’ ظالمانہ فضائل ‘ سے کون واقف نہیں؟ کسی سیاستدان نے کالعدم TTP سے مذاکرات کرنے کی غرض سے اہلِ سوات کی مرضی ومنشا معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی ؟ چاہے جماعتِ اسلامی کے قائد منور حسن ،TIP کے سربراہ عمران خان یا مولانا فضل الرحمان ہوں اِ ن’’ حضرات‘‘ سمیت حکومتی زعما ء بھی پاکستانی آئین کی واضح حاکمیت سے دیدہ و دانستہ انحراف کی روایات و رجحانات کو پروان چڑھا کر ریاستِ پاکستان کی بنیادیں نہیں ہلا رہے ؟ اُنہیں ‘ سوات و دیر کے علاقوں کے ہزاروں مسلمانوں کے کھلے قتلِ عام کاواضح ’مجرم ‘ ملا فضل اللہ کی مذمت میں ایک جملہ ادا کرنا تو رہا درکنار ‘اُس کی اپنی ذات سے وابستہ انسانیت کے احترام کی دھجیاں اُڑانے کی کوئی ایک بھی مکروہ ترین ’بُرائی‘ کا کوئی عنصر دکھائی نہیں دے رہا ؟ وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ’مذہبی قائدین ‘ دہشت گردی کے اِس فتنہ کو کچلنے کے لئے قرآنِ حکیم سے رجوع کرتے تاکہ ملک بھر میں کینسر کی عفریت کی مانند پھیلتی ہوئی دہشت گردی کا قلع قمع کیا جاسکتا قوم کو متحد ویکجا کرکے سرزمین پاکستان کے تحفظ وبقاء کی کوئی اہم خدمت بجا لا ئی جاتی لگتا ہے دورِ حاضر کے مذہبی جماعتوں کے قائد ین ‘ بالخصوص جماعتِ اسلامی اور جمعیتِ علمائے اسلام کے منور حسن اور مولانا فضل الرحمان دہشت گردوں سے ہمدردی جتلا نے کی بھگدڑ میں شریک ہوکر اپنی دوغلی سیاست کے سازشی اذہان کو تقویت پہنچانے کے علاوہ عوامی بھلائی کا کوئی اور کام کرنا ہی نہیں چاہتے ،سیّد منور حسن نے افواجِ پاکستان کے قابل ستائش شہداء کے احترام ولحاظ کو آنِ واحد میں ملیامیٹ کر دیا، مولانا موددی علیہ رحمہ کی تربیت کردہ جماعتِ اسلامی کے مروجہ اعلیٰ وارفع اُصولوں کے بر خلاف اُنہوں نے انتہائی نازیبا، گستاخانہ اور احمقانہ گفتگو کا طرزِ عمل اپنایا ‘یقیناًقوم کے اُن طبقات کے نزدیک اِن کایہ منفی اقدام قابل قبول نہیں رہے گا جن کی ہمدردیاں جماعت اسلامی کے ساتھ تصور کی جاتی ہیں افواجِ پاکستان سے وابستہ ہزاروں شہید جوانوں کے خاندانوں کے کئی لاکھ افراد کے ملی و وطنی احساسات وجذبات کا خون کر کے منور حسن لاکھ معافی تلافی مانگیں اپنے کہے گئے بیان کی مبینہ وضاحتوں میں دلیلیں پیش کریں پاکستانی قوم اُنہیں کبھی معاف نہیں کرئے گی، بات کہا ں سے شروع کی جائے 1948 کی کشمیر جنگ ‘1965 کی پاک بھارت جنگ ‘ 1971 کی المیہ ِٗ مشرقی پاکستان کی جنگ ‘ اِن جنگوں میں پاکستانی فوج کے جوانوں کے ہمراہ لاتعداد سویلین شہید ہوئے‘ پولیس اور نیم ملٹری فورسنز کے جوان شہید ہوئے 1979 سے روسی افواج کی افغانستان سے واپسی تک شہید و زخمی ہوئے پاکستانی مجاہدین اور فوجی جوانوں کی بیباک و والہانہ شہادت کا تمسخر اُڑاکر منور حسن نے ثابت کردیا ‘ اِن کا مزاج کبھی قائدانہ صلاحیت رکھتا ہی نہیں تھا،
جماعتِ اسلامی کی شوریٰ کو اب اپنی صفوں میں چھپے ہوئے کج فہم ‘ غیر دانشمند ‘ نچلے ‘سطحی اور عامیانہ خیالات رکھنے والوں کو کھنگالنا ہوگا، ملکی نظریاتی تاریخ سے اِس قدر بے پروہ اور بیگانہ کوئی فرد اِس اہم جماعت کا سربراہ کیسے بن گیا ؟ دہشت گردوں کی محبت میں جماعتِ اسلامی نظریہ ِٗ پاکستان اور آئینِ پاکستان کی وفاداری سے اِتنی دور جاسکتی ہے، یا اتنی گر سکتی ہے؟ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ہم جماعتِ اسلامی کے ہمدرد یا حمائتی نہیں ‘ ہمیشہ ’ لیفٹ ‘ پر رہے‘ ہمارا تعلق ہمیشہ ایک ترقی یافتہ اور خوشحال صنعتی پاکستان کی دھرتی سے جڑا رہا ‘ دھرتی کا تعلق دنیا بھر سے جڑا دیکھنے کی ہماری ازلی تمنا رہی ‘ دنیا کی ترقی یافتہ مہذب اور پُرامن قوموں سے لا تعلق ہو کر ہم علیحدہ ر ہ بھی نہیں سکتے، ہم یہ بھی جانتے ہیں ہم جیسے دنیا والوں کو عرشِ بریں سے الہام نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے واقعات وحالات ہماری رہنمائی کرتے ہیں اکثرو بیشترہم پاکستان کو ’وطنِ عزیز‘ بھی کہتے ہیں مغربی اندازِ فکر کے تعصب میں رچے بسے چند حلقے ’وطنِ عزیز ‘ کی ہماری انتہائی والہانہ اور پُرجوش اِس جذباتی وابستگی کو ’ناپسند یدہ اور تیکھی ‘ نظروں سے دیکھنے کے عادی ہیں مگر ہم مناتے ہیں جیسا وطن کی اکثریت سوچتی ہے یہ اندازِ فکر بالکل صحیح ہے پاکستان میں اب ہماری تیسری نسل جوان ہوچکی ہے گزشتہ65-66 برسوں پے درپے تاریخِ عالم میں رونما ہونے والے دردناک المیوں‘علاقائی وعالمی حادثات کے کبھی ’ ڈائریکٹ‘ کبھی ’اِن ڈائریکٹ‘واقعات کے بہت مضر اور انتہائی کرب ناک اثرات نے پاکستانیوں کی زندگیوں کو ناقابلِ بیان حد تک اپنی بہیمانہ لپیٹ میں بھی لیا بحیثیتِ قوم ہر مرتبہ اِن وقوقع پذیر حوادث و واقعات کے نتیجے میں ہم تاریک گھاٹیوں، کھائیوں میں گرتے گرتے کبھی بچے‘ کبھی پھسلے ‘ کبھی تھمے، کبھی اپنے ڈگمگاتے قدموں کو‘ اپنی قومی قوتِ ارادی کی طاقت کو ‘بروئےِ کار لاکر اُنہیں سنبھالنے کی حتی الامکان کامیاب کوششیں کیں، جو یقیناًہماری قومی تاریخ میں سنہری لفظوں سے رقم ہوتی رہیں گی عزم وحوصلہ سے مزین ہماری روشن تاریخ کے قابل تقلید یہ ہی واسطے اور راستے ہماری آنے والی نسلوں کے لئے شمعِ راہ بھی بنتے رہیں گے، کئی منور حسن آئے گئے ،پاکستان ‘ پاکستانی عوام اور آئینِ پاکستان کی تحفظ افواجِ پاکستان کے تاریخی عزم واستحکام اور تزک واحتشام میں رتی برابر کوئی فرق کبھی نہیں آیا نہ ہی انشاء اللہ کبھی آئے گا ۔