عبدالقادر ملا بمقابلہ غدارانِ وطن
عبدالقادر ملا کو بنگلہ دیش میں پھانسی دے دی گئی ۔ جرم ان کا یہ تھا کہ وہ ہر دور میں اپنے ملک کے وفادار رہے انہوں نے ہمیشہ اپنے ملک کے آئین کی پابندی کی۔ جنگی جرائم کا جو الزام ان پر لگا اس کے لیے بالغ گواہ بھی دستیاب نہیں تھا بلکہ اُس وقت کی گیارہ سال کی ایک لڑکی کی گواہی کو قبول کیا گیا۔ دراصل یہ مقدمہ خا لصتاََ بدنیتی پر مبنی اور سیاسی بنیادوں پر چلایا گیا اور پاکستان کے پہلے یوم آزادی یعنی 14 اگست 1948 کو پیدا ہونے والا ایک وفادار پاکستانی اور ایک وفادار بنگلہ دیشی عبدالقادر ملا بنگلہ دیش کے یوم آزادی یعنی 16 دسمبر سے صرف چار دن پہلے پھانسی چڑھا دیا گیا
1971 کے بعد بیالیس سال تک یہ بنگلہ دیشی، بنگلہ دیش کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوا تھا ۔ جب تک پاکستانی تھا تو پاکستان کا پورے دل و جان سے وفادار رہا اور بنگلہ دیش بننے کے بعد بنگلہ دیش ہی کے ہر فیصلے اور قانون کو تسلیم کیا ،دو بار الیکشن لڑا ایک بار 1986 میں دوسری بار 1996 میں اگر چہ دونوں بار ہار گئے لیکن اس شکست کو بھی تسلیم کیا۔ وہ ایک صحافی تھے اور اخبار سنگرام کے ایڈیٹر رہے، پریس کلب کے عہدے دار منتخب ہوئے پھر آخر کونسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر انہیں پھانسی دی گئی۔
وہ وجہ یقیناًحسینہ واجد کی حکومت تھی جو آج بھی پاکستان دشمنی میں اپنے مرّبی بھارت سے بھی آگے نکلنے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ اُسے اپنے والد پر بھارت کے احسانات کا بدلہ چکا نا ہے۔ شیخ مجیب الر حمن نے جس طرح بھارت کے منصوبے پر مشرقی پاکستان میں عمل درآمد کرایا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ غداری کا بیج تو بہت پہلے بو دیا گیا تھا لیکن مجیب جیسا غدار تیار کرتے کرتے وقت لگا اور 1971 میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ سارا بنگلہ دیش اس منصوبے کا حامی نہ تھا اور انہی بنگالیوں میں الشمس اور البدر کے رضا کار بھی شامل تھے جن میں سے ایک عبدالقادر ملا بھی تھے جنہیں 12 دسمبر کو جنگی جرائم کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی اور ا نہیں غدار قرار دیا گیا جبکہ وہ اُس وقت کی اپنی حکومت اور ملک کے حامی تھے۔
انہیں جیسے کچھ اور لوگ بھی اِن جیسے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ غدار مسند حکومت پر برا جمان ہیں ۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی پر آج نہ حکومت پاکستان ، نہ سیاستدانوں اور نہ میڈیا نے وہ رد عمل ظاہر کیا جو ہونا چاہیے تھا ۔ سیاستدانوں نے تو شاید جماعت اسلامی کی مخالفت میں اور حکومت نے بھی ایک اور جماعت سے تعلق رکھنے پر انہیں اس کا حقدار ہی نہیں سمجھا اور میڈیا کو تو جیسے حقیقی معاملات سے صرف نظر کرنے کی عادت ہی پڑچکی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے ملک میں ہونے والے کسی بھی واقعے پر احتجاج کو تو اپنا فرض سمجھتی ہیں لیکن اس واقعے پر مجرمانہ طور پر خاموش رہیں ۔
اسی میڈیا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اس سال مارچ میں بنگلہ دیش میں پاکستان کی مخالفت پر ایوارڈ حاصل کئے بلکہ حامد میر نے تو ان محب وطن پاکستانیوں پر مقدمہ چلانے اور سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا جنہوں نے قیام بنگلہ دیش کی مخالفت کی تھی لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ یہی خاص لوگ پاکستان میں با عزت بنے بیٹھے ہیں اور قوم کو بلوچستان کے حالات کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس بات سے قطع نظر دے رہے ہیں کہ بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے جغرافیائی حالات بہت مختلف ہیں ایک پورے پاکستان سے جڑا ہوا ہے جبکہ دوسرا ایک ہزار میل کی دوری پر تھا وہاں کے لوگ مغربی پاکستان کے زمینی حالات نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن بلوچستان کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت پورا پاکستان ایک جیسے حالات سے گزر رہا ہے تاہم کچھ لوگ صرف وہاں ہی کے حالات کو دیکھ رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ ہم کسی معاملے کو کیا رنگ دیتے ہیں لیکن سازشوں کا توڑ کرنے کی بجائے ہم اُسے ہوا دیئے جا رہے ہیں اور عبدالقادر ملا کی پھانسی تو نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے کے لیے مہمیز کا کام دے گی اور شرپسندوں کے آگے کوئی کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں کرے گا کہ کل کلاں کو اگر مجیب کی طرح ان کے غدار بھی کامیاب ہوگئے تو ان کے محب وطن لوگ بھی پھانسی چڑھا دئیے جائیں گے اور باوجود معاہدوں کے پھانسی چڑھا دئیے جائیں گے کیونکہ بنگلہ دیش بھارت اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہو چکا تھا کہ جنگ کے کسی کردار پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا لیکن بنگلہ دیش اس خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے لہٰذا پاکستان کو اس پر اصولاََ احتجاج کرنا چاہیے تھا جو کہ انتہائی بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے نہیں کیا گیا۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی جماعت اسلامی کے رکن نہیں بلکہ پاکستان کے ایک حامی کی پھانسی تھی اور انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی اور عدالتی اور حکومتی ایماپر قتل ۔ جہاں دنیا کے کچھ ممالک پھانسی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں وہاں ایک ایسی پھانسی تو یقیناً قابل مذمت ہونی چاہیے اور اسی لیے برطانیہ، ترکی ، آسٹریلیا اور یورپی یونین نے اس کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے ہومن رائٹس کمشنر نیوی پیلے نے بھی اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس فیصلے پر عمل در آمد روکنے کو بھی کہا تھا کیونکہ عمر قید کی اس سزا کو بنگلہ دیش کے قانون میں تبدیلی کرکے اسے سزائے موت میں تبدیل کیا گیا لہٰذا یہ کسی بھی طرح مبنی بر انصاف فیصلہ نہیں تھا۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی حسینہ واجد اور اس کی حکومت کا بھارت سے محبت اور پاکستان سے نفرت کا ایک اظہار تھا جس پر دنیا میں ادھر اُدھر سے کچھ آوازیں تو اٹھیں لیکن ہماری طرف سے وہ رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا جو ہو نا چاہیے تھا یعنی مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔ بہر حال ایک عام پاکستانی اپنے دل میں ان کی پاکستان کے لیے اس قربانی پر احترام اور عقیدت محسوس کر رہا ہے اور شخصیات حکومت کی کتابوں میں زندہ نہ بھی رہیں تو قوموں کی عقیدت انہیں زندہ رکھتی ہے اور عبدالقادر ملا پاکستانیوں اور اُن بنگلا د یشیوں کے لیے ایسی ہی ایک شخصیت رہیں گے جو ان کی پھانسی پر سراپا احتجاج ہیں۔