اورافضل گوروکے بعداب مظفرجہاں مقبول بٹ شہید اپنے عزم ،حوصلے اوربے مثال استقامت کے پسِ منظر میں دو جہاں کے لیے امر ہو کر عنداللہ مقبول ہو ا وہی افضل دورِ حاضر کی سب سے بڑی جمہوریہ کے دعویدار ملک کی سیکولر اور اہنسا کے بت کو پاش پاش کر نے میں کامیاب ہو گیا اس لیے کہ ان دونوں کو اس کانگریس نے تختہ دار پر چڑھایا جس کا نگریس کا آر ،ایس،ایس،بجرنگ دل ،وی ،ایچ،پی اور بی جے پی کے برعکس سیکولر اور ’’پیامبر اہنسا ‘‘ہو نے کا دعویٰ ہے ۔مگر دینا جانتی ہے کہ جہاں مسئلہ کشمیر کے ’’کینسر‘‘ کی موجد کانگریس ہے وہی اس کی تاریخ میں شامل یہ تضاد بھی قابل غور ہے کہ کانگریس ایک دن کے لیے بھی ’’عملی میدان‘‘میں سیکولر تنظیم ثابت نہیں ہو ئی ہے یہ کامل انتہا پسند جماعت رہی ہے اور رہے گی اس لیے کہ اس نے صرف کاغذوں میں سیکولر ازم کا نعرہ درج کر رکھا ہے عملی طور پر یہ جماعت آر،ایس،ایس سے دس ہاتھ آگے ہے ۔یہی وہ جماعت ہے جس نے نصف صدی تک بھارت پر حکومت کی ،یہی وہ جماعت ہے جس کی(بقول سابق راجہ سبھا ممبرارشد مدنی کے) نصف صدی کی حکمرانی کے دور میں بھارت بھر میں مسلمانوں پرپنتالیس ہزار حملے کئے گئے ،مظفر نگر فسادات تو کل کی بات ہے ،بابری مسجد کا سارا مسئلہ ہی کانگریس کے دور حکومت میں ابھرا اور خوفناک شکل اختیار کر گیا ،ہزاروں لوگ مارے گئے اور ہزاروں خاندان اُجڑ گئے مگر مسئلہ پون صدی گذرنے کے باجود جوں کا توں ہے ۔ یہ کانگریس حکومت ہی تھی جس کے لیڈروں نے مسئلہ کشمیر کو جنم دیا اور اس مسئلہ کشمیر کی کوکھ سے دہشت،تباہی ،نسلوں کی بربادی ،معیشت کی خرابی ،سیاسی بے یقینی ،تعلیمی پسماندگی اور آپسی نفرت و عداوت کی ایسی نہ بجھنے والی آگ برآمد ہوئی کہ دہائیاں گذر جانے کے باوجود بھی مسئلہ اسی جگہ زندہ ہے جس جگہ یہ سن سنتالیس میں تھا ۔یہ مسئلہ کشمیر ہی تھا جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان چارلا حاصل جنگیں چھڑ گئیں جس میں کھربوں ڈالروں کا نقصان اور ہزاروں کی زندگیا ں فنا ہوگئیں۔ مگر مسئلہ کشمیر اس کے باجود اپنی جگہ زندہ رہا اس سے بھی حیرت کی بات یہ کہ 1947ء کے تقسیم برصغیر کے وقت چار لاکھ لوگ جموں خطے میں مارے گئے اور 1990ء کے بعد سارے جموں و کشمیرمیں ایک لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں ،ہزاروں ہندؤ ،مسلم اور سکھ بے گھر ہو کر مہاجرانہ زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے اور آج کی نئی نسلیں اپنی حقیقت تک فراموش کرتی جارہی ہیں اور وہ نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوکر نہ ہی نئے علاقوں میں اپنے آپ کو ضم کر پائے اور نہ ہی یہ نئی نسلیں کشمیری رہ پائیں ۔