Posted date: August 21, 2013In: Urdu Section|comment : 0
ایس اکبر
رمضان کی رحمتوں سے مستفید ہونے کے بعد ہر مسلمان عید کے تہوار کی تیاریاں پورے زورو شور سے کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے عید ہر مسلمان کے لئے ایک تحفہ کے طور پررکھی ہے جو اُسے ایک ماہ تک صبرو تحمل کے ساتھ خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے ملتا ہے ۔ اس لیئے اس روزہر مسلمان کی خوشیاں قابل دید ہوتی ہیں لیکن پاکستان کے دشمن سفاک دہشت گردوں نے معصوم اور نہتے شہریوں کی عید کو بھی غم و سوگواری میں بدل دیا اور بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ دہشت گرد ایک عرصے سے اپنی ظالمانہ کاروائیوں سے معصوم لوگوں کو اپنی بر بریت کا نشانہ بناتے رہےہیں لیکن کسی بھی خاص تہوار یا دن کے موقع پر ان ظالموں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں کےذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوںکو اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں۔ عیدسے پہلے جو خونریزی اور قتل و غارت کا سلسلہ ان دہشت گردوں نے شروع کیا وہ عید کے دن اور اسکے بعد بھی جاری رہا۔ دہشتگردوں نے اس مرتبہ بلوچستان کو سب سے زیادہ اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔
عید سے دو روز قبل کو ئٹہ کےا یس ایچ او محب اللہ جان پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خریداری میں مصروف تھے۔ اگلے روز ان کےنمازِ جنازے پر خود کش حملہ کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن سکیں۔ان کی نمازہ جنازہ پولیس لائن کو ئٹہ میں ادا کی جانی تھی جہاں ایک خود کش حملہ آور نے چیکنگ کے دوران اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا۔ جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی آپریشنز فیاض سنبل اور متعدد اعلیٰ افسران اور اہلکاروں سمیت تقریباً 38 افرادجان بحق اور 60 زخمی ہو گئے۔ کالعدم تحریک طالبان کے اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
دہشت گردی کے سنگین نوعیت کے واقعات نے ان دہشت گردوں کی حقیقت سب پر عیاں کر دی ہے۔ اس طرح کے ایک اور ہولناک واقعہ میں دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقے بولان میں مسافر بسوں سے اتار کر تین سیکورٹی اہلکاروں سمیت 14 افراد کو قتل کر دیا۔ اسی طرح چاند رات والے دن کراچی میں ہونے والا بم دھماکہ بھی ان ظالموں کی بر بریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس میں 11 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر معصوم بچے تھے جو وہاں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ یہ ظالم دہشت گرد جہاد کے نام پر معلوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ عید کے روزاسلام آباد میں دہشت گردی کا خوفناک منصوبہ اس وقت ناکام بنا دیا گیا جب بہارہ کہو کی مسجد میں آنیوالے دہشت گرد کو گارڈ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی جہنم وار کر دیا۔
یہ کہاں کے مسلمان ہیں اور کس مذہب کی بات کرتے ہیں؟ کس مذہب نے انھیں اس بے دردی سے معصوم لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کی اجازت دی ہے؟ اسلام تو اپنی تعلیمات اور افکار و نظریات کے لحاظ سے امن و سلامتی، خیرو عافیت اور آمان کادین ہے۔ اللہ اور اسکے رسولؐ کے نزدیک مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہے جو تمام انسانیت کے لئے پیکرِ امن سلامتی ہو۔ اس لیے انتہا پسند دہشت گرد معصوم لوگوں کا خون بہانے والے ظاہر اً کتنے ہی اسلام کے علم بردار کیوں نہ بنتے پھر یں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ اسلام تو کیا اُن کا انسانیت سے بھی دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا ہرعمل اسلام کے برعکس ہے۔
رمضان اور پھر عید جیسے مقدس موقعوں پر دہشت گردی کرنے کے بعد خود کو مسلمان گرداننا صریحاً منافقت ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدرو قیمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس مذہب کی تعلیمات کی روح سے ایک بے گناہ انسان خواہ ہو کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔لٰہذا خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والے شدید عذاب الہٰی کے حقدار ہیں۔
دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ہماری قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ سیکورٹی اہلکار انٹیلی جینس ایجنسیوں کے تعاون سے دہشت گردی کےبہت سے منصوبے نا کام بنا رہے ہیں تاہم انہیں اپنی کوششیں مزید تیز کرنی ہوں گی۔ ان انتہا پسند دہشت گردوں ، علیحدگی پسندتحریکوں اور فرقہ وارانہ کالعدم تنظیموں کو ملک دشمن عناصر کی پشت پنائی حاصل ہے جس سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے تحت ان دہشت گردوں کے خلاف جلد از جلد فیصلہ کن اقدامات عمل میں لائے جائیں تا کہ ملک میں امن وامان کو بحال کیا جا سکے۔