فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت
فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت
ایس اکبر
محرم الحرام میں حضرت امام حسینؓ کی لازوال قربانی کی یاد تازہ کی
جاتی ہے۔ اسلام کے اِس حرمت کے مہینے کی اہمیت سے کسی ذی ہوش کو انکار نہیں بلکہ دو مسالک سُنی و شیعہ ہمیشہ سے ہی اس مہینے کو پورے مذہبی عقیدت اور احترام سے مناتے رہے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے محرم کی آمد سے قبل ایک انجانا سا خوف ذہینوں میں رہتا ہے۔کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں انتہا پسند عناصر اہلِ تشیع کے جلسے وجلوسوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ر ہےہیں ۔ پچھلے سال راولپنڈی کے علاقے میں ہونے والے سانحہ کی وجہ سےملک میں فرقہ وارنہ ہم آہنگی کا ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔اِس کے علاوہ فرقہ واریت ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماوں اور افراد کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق رواںسال میں اب تک 160سے زائد افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اِسی ضمن میں کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارہ گنجی میں فائرنگ کے افسوسناک واقعے میں ہزارہ ٹاون کے 9 سبزی فروشوں کوخون میں نہلا دیا گیا۔ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والےافراد مسلسل انتہا پسند دہشت گردوں کے عتاب کا شکار رہے ہیں۔
اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے جو بھائی چارے اور اخوت کو ہمیشہ مقدم رکھنے کو ترجیح دیتا ہے یہاں تک کے دین اسلام غیر مسلموں اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ خیر سگالی اور محبت کے جذبات کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔بد قسمتی سے اس وقت عالمی دہشت گردی نے دنیا سے سکون چھین لیا ہے اور اس بھی بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہےکہ اسلام کو دہشت گردی اور فرقہ واریت سے منسوب کیا جاتا ہے۔دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی فتنہ و فساد یا دہشت گردی ہو، اسلام اور مسلمانوں کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا جاتاہے،جب کہ حقیقت یہ ہےکہ اسلام حقیقی معنوں میں امن عالم کا پر چار کرتا ہے۔اسلام کے پُرامن بقائے باہمی کے اصول کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات اور پاکستان کے آئین کے مطابق ہر فرقے کو اپنی مسلکی تعلیمات کے مطابق عبادت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کے کس فرقے کے عقائد درست اور اکمل ہیں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیگر مسالک اور فرقوں سے علمی اور مسلکی اختلافات کی بنیاد پر جھگڑا نہ کرے۔مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کومسلسل ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔درحقیقت ایک بہت ہی سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلا جارہا ہے۔انتہا پسند دہشت گرد کبھی مقدس دنوں پر جلسہ جلوسوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی مقدس جگہوں پر اپنی بربریت کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ فرقہ واریت جیسے حساس مسئلے کا استحصال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک دشمن عناصر صرف اور صرف اس ملک کی تباہی اور بربادی چاہتے ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکا کر اس ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینا چاہتےہیں۔ پاک وطن کو سب سے زیادہ خطرہ فرقہ واریت سے لاحق ہے کیونکہ ملک دشمن عناصر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے دو اہم فرقوں شیعہ اورسنی مسالک کے اختلافات کو ہتھیار بنا کر ملک میں بدامنی اور فساد برپا کیا جائے۔ شیعہ اور سنی اپنے نظریاتی ا ور مذہبی اختلافات کے باوجود ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات پُر تشدد کاروائیوں سے گریز کرتے رہے ہیں۔دونوں مسالک سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے مسلک اور فرقے کی تعلیمات کے احترام پر زور دیا ہے۔
ماہ محرم کے دوران دہشت گرد پھر سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں تا کہ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والےافراد کے جذبات کو بھڑکا کر آپسی نفرت اور انتشار پھیلایا جا سکے۔اس ضمن میں تمام علماء اکرام کو چاہیئے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے برداشت، بھائی چارے اور محبت و یگانگت کے جذبات کے فروغ کو یقینی بنائیں تاکہ دشمن ہماری صفوں میں داخل ہوکر ہمارے درمیان دراڑیں پیدا نہ کرسکے۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما اکرام کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے متعلقہ مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت اور اہمیت سے متعلق شعور پیدا کریں اور ان میں احساس ذمہ داری اجا گر کریں کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پیچھے ملک دشمن عناصر کا ہاتھ ہے۔پاکستانی عوام کو بھی آپسی اتفاق سے اِ س مشکل وقت میں متحد ہو کر کھڑے ہونا ہے تا کہ کوئی تیسری طاقت مختلف فرقوں کو آپس میں نہ لڑواسکیں۔ حکومتِ وقت اور اربابِ اختیار کی بھی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ مدارس اور اسکولوں میں پڑھائےجانے والے نصاب سے اشتعال انگیز مواد کے خاتمے کی یقینی دہانی کریں تا کہ مسلک اور فرقوں کے نام پر کسی میں مدارس اور سکول میں معصوم لوگوں کے ذہن کو زنگ آلود نہ کیا جاسکے۔ہم سب کو مل کر اس نازک وقت میں ملک دشمن عناصر کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔