Posted date: November 26, 2013In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
سازشوں کا سلسلہ ہے کہ پاکستان کے خلاف جا ری ہے شاید خدا کی کوئی خاص رحمت ہے یا ابھی کچھ مخلص لوگ اس ملک میں موجود ہیں کہ جن کے خلوص کے صدقے یہ صفحہ ہستی پر موجود بھی ہے اور ان سازشوں کے سامنے ڈٹا بھی ہوا ہے، ایک نہیں کئی دشمنوں کا مقابلہ بھی کر رہا ہے اور اپنی بقا کی جنگ میں کامیاب بھی ہے۔ کبھی پڑوسی ملک بھارت کی دشمنی اور سازشوں سے نبرد آزما ہوتا ہے، کبھی عالمی طاقتوں کی جنگوں سے بچ کر نکل جاتا ہے، کبھی غیر ملکی مداخلت کا شکار ہوتا ہے اور خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ لیکن سازشوں کا مقابلہ کرتے کرتے یہ قوم تھک چکی ہے اگر چہ خدا کا شکر ہے کہ اس کی ہمت ابھی ٹوٹی نہیں لیکن تابکے ۔
اب جو نیا حربہ آزمایا گیا ہے وہ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوشش ہے ۔ اگر چہ یہ کوشش ہو تو عرصہ دراز سے رہی ہے لیکن دائرہ کار کو کچھ علاقوں تک محدود رکھا گیا تھا اُن علاقوں میں جہاں شیعہ اور سنی مسلمانوں کی تعداد میں فرق نسبتاََ کم ہے کبھی کوئٹہ ، کبھی پاڑا چنار اورکبھی گلگت سکردو میں یہ فساد کر وایا جاتا ہے لیکن اس بار روالپنڈی جیسے مرکزی شہر میں یہ فساد کروانے کی کوشش کی گئی بلکہ کروایا گیا اور کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں اور املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا مدرسہ تعلیم القرآن کومسمار کیاگیا اورتین مارکٹیں نذر آتش کی گئیں ۔ایسا نہیں ہے کہ یہ فرقہ واریت پہلی دفعہ کی گئی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے آخر ایسا ہو کیسے جاتا ہے وہ کون لوگ ہیں جو یہ سب کچھ کر لیتے ہیں کیا اِن تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ عام دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتے سہتے یہ ایک دوسرے کے خون کے کیا ایسے ہی پیا سے رہتے ہیں حالانکہ یہ ایک دوسرے کے نظریات اور عقائد جانتے ہیں اور پھر بھی ہر روز ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور پُر امن رہتے ہیں پھر کیسے مخصوص دنوں میں یہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور کیوں ایک دوسرے کے عقائد پر حملے شروع کر دیتے ہیں دعویٰ ہر طرف سے ایک خدا کے ماننے اور ایک رسول ﷺ کی غلامی کا کیا جاتا ہے لیکن اُسی خدا اور اُسی رسولﷺ کے دین کو دنیا میں مذاق بنا دیتے ہیں اور ایسے وقت میں ہمارے علما ء جن کی ایک آواز پر ہزاروں لوگ لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جاتے ہیں اپنا کردار کیوں ادا نہیں کر پاتے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے واقعات میں متعدد بار غیر ملکی ہاتھ ملوث ہوتا ہے اور اس کا ثبوت بھی مل جاتا ہے لیکن صرف غیر ملکی ہاتھ کا اعلان کرکے اسے بے نقاب نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی سزا دی جاتی ہے تو اب عوام اِن ہاتھوں سے خود کو کیسے محفوظ رکھ سکیں ۔
یہاں ہمارے ایمان کی کمزوری بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ ہم غیروں کے ہاتھوں بک کیوں جاتے ہیں اور بکتا کون ہے لیڈر یا عوام اور یا یہ زنجیر غیر ملکی آقاؤں سے شروع ہو کر پاکستان کے غریب اور بے خبر عوام تک پہنچتی ہے جو عالم اسلام کی یکجہتی اور اسلامی اخوت پر جان دینے پر آمادہ رہتے ہیں اور یقیناًاس پر ان کا فخر بجا ہے لیکن کیا ہمارے برادر اسلامی ممالک بھی اس بات کا احساس کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان جو ان کے ہر دُکھ درد میں شریک رہتا ہے ،ظلم اُن پر ہو تو احتجاج پاکستانی کرتا ہے لیکن مصیبت کے وقت میں وہ ہمارے مسائل میں اضافہ ہی کرتے ہیں اور غیر مسلم دنیا کے آلہء کار بن جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اپنی عقیدت کی وجہ سے مکہ مدینہ کے صدقے میں ہم ان کی بہت ساری غلط پالیسیوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی جانتا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں جاری بدامنی میں مذہب اور فرقے کے نام پر اُس کا بھی ایک کردار ہے اور یہ کردار انتہائی افسوس ناک ہے۔
وہ ایک خاص مکتبۂ فکر جو پاکستان میں اکثریت میں نہیں ہے کو اکثریت کی رائے پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف ایران اپنے مسلک کے علماء، امام بارگاہوں اور سیاسی جماعتوں کی مدد کر رہا ہے اور یوں دو ملکوں کے درمیان پِس ہم پاکستانی رہے ہیں اور ہمارے علماء اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے مفادات کی بجائے دوسروں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ۔ ہماری حکومت نے نہ تو پہلے اس طرح کے واقعات کو سنجیدگی سے لیا ہے اور نہ اب اُس کا رویہ سنجیدہ ہے بلکہ نہ ہی کبھی کسی بھی حکومت نے ایسا سوچا ہے۔ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ وہ دن جب اتحاد واتفاق کی ضرورت ہوتی ہے انہی دنوں پر ہم ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں بلکہ پوری قوت لگا کر ایسی حرکات کرتے ہیں کہ دوسرا فریق رد عمل کا اظہار کر لے اور بسا اوقات تو معمولی بات کو ہی اچھال کر قتل عام تک نوبت پہنچا دیتے ہیں خون ہمارا بہتا ہے اور مفادات کسی اور کے پورے ہوتے ہیں۔ طالبان کو امریکہ کی محبت میں یا اپنے نظر یے اور مسلک کی ترویج کی کوشش میں پیسہ عرب دنیا سے ملتا ہے تو ایران بھی پاکستان میں اپنی مرضی کے لوگوں کو بھی روپیہ فراہم کرتا ہے اور افغانستان میں بھارتی منصوبوں میں مدد گار بن کر بھی پاکستان کا نقصان کرتا ہے اور پھر بھی ہمارے علماء ان کے حکم کو مقدس جان کر ان پر عمل کرتے ہیں۔
یہ وقت دوسروں کے مفادات کے تحفظ کا نہیں ہے ہمیں اپنے پچھلے ساٹھ ستر سالوں پر نظر ڈال لینی چاہیے کہ ہمارے مفادات کا کس کس نے تحفظ کیا اگر نہیں تو پھر خود ہی کمر باندھ لیجئے اور اپنی مدد کرنے کے لیے خود نکل کھڑے ہوں۔ علماء اگر اس بات پر خوش ہیں کہ لوگ ان کے کہے پر سرکٹا اور کاٹ دیتے ہیں تو پھر اپنی اس صلاحیت اور قبول عام کو اپنے دین کی سربلندی اور اسلامی اخوت کے لیے استعمال کریں اپنے دنیوی آقاؤں سے احکامات لینے کے بجائے اپنے اللہ اور رسول ﷺکے احکامات پر عمل کریں انہیں کے احکامات کو پھیلائیں، مدرسے کی گئی گزری عزت بحال کریں، اسے معاشرے میں جو مقام حاصل تھا وہی مقام لوٹا دیں ،وہاں پڑھنے والے بچوں کو بتا ئیں کہ فرقہ تو فرقہ اِسلام تو دوسرے کے مذہب میں بھی مداخلت پسند نہیں کرتا۔جیسے میرے لیے میرا فرقہ پسندیدہ ہے ایسا دوسرے کے لیے دوسرے کا ہے۔ میں شیعہ اور سنی کی تفصیلات میں جانا چاہتی ہوں نہ بریلوی، دیوبندی ،اہلحدیث، وہابی، جعفری، زیدی کی تفریقات میں کیونکہ جو جہاں ہے وہ وہاں صدیوں سے ہے اور وہاں رہے گا ۔ہم اپنے عقیدے میں پختہ رہیں اور دوسرے کو عزت دیں تو کسی کو متا ثر کرنے کا اس سے بہتر طریقہ نہ ہوگا۔ امن قائم رکھنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور حکومت تو اس کے لیے پابند ہے کہ وہ امن قائم رکھے گی۔ محرم ،ربیع الاول یا دوسرے ایام سے پہلے اگر وہ علماء کو ہی یہ ذمہ داری دے کہ وہ عوام کے جذبات کو قابو میں رکھیں گے اور ناکامی کی صورت میں وہ ذمہ دار ہوں گے تو شاید خرابی کچھ کم ہو۔ مذہبی رواداری کا درس جتنا اسلام نے دیا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں لیکن ہمارے اعمال نے ہمیں جگ ہنسائی کے لیے ایک رول ماڈل بنا کر رکھ دیا ہے اگر ہم اب بھی فیصلہ کر لیں کہ ہم نے نظریات کے اختلاف کے باوجود ایک رہنا ہے تو ہم اپنی عزت بحال کر سکتے ہیں اور ہماری خوش قسمتی کہ بحیثیت مسلمان ہم یہ بہت آسانی سے کر سکتے ہیں کہ لاکھ اختلافات کے باوجود ہماری بنیاد ایک کلمہ ہے۔ یہ ایک کلمہ ہمیں ایک بنا کر باقی دنیا سے ممتاز کر دیتا ہے اور ہمیں ایک قوم بنا دیتا ہے پس ہے کوئی جو سوچے اور سمجھے۔